Ukraine invasion: Strict sanctions on Russia by several countries, including the United States and the European Union

GR SONS

 


یوکرین پر روسی افواج کے حملے کے بعد امریکا، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے روس پر نئی اور سخت پابندیوں کا اعلان کردیا ہے۔


خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ پابندیاں روس کو عالمی مارکیٹ میں اہم کرنسیوں میں کاروبار کرنے کی صلاحیت سے محروم کرتی ہیں اور ساتھ ہی روسی بینکوں اور سرکاری اداروں کے خلاف بھی پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔

تازہ پابندیوں میں روس کے 2 بڑے بینکوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو امریکی ڈالر میں لین دین نہیں کرسکیں گے، جب کہ ریاستی توانائی کی بڑی کمپنی 'گیزپورم' اور دیگر بڑی کمپنیاں مغربی منڈیوں میں فنانسگ نہیں کر سکیں گی۔

مزید برآں اتحادی ممالک نے روس کی ہائی ٹیک اشیا پر برآمدی کنٹرول نافذ کر دیا جس کا مقصد روس کے دفاع اور ایرو اسپیس سیکٹر کو تباہ کرنا ہے، جب کہ واشنگٹن نے پابندیوں کی فہرست میں شامل روسی کمپنیوں میں مزید نام شامل کیے۔

جوبائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ حملہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے، ولادیمیر پیوٹن جارح ہیں، انہوں نے اس جنگ کا انتخاب کیا اور اب وہ اور ان کا ملک اس کے نتائج بھگتیں گے۔

جوبائیڈن نے کہا کہ یہ پابندیاں روس پر طویل مدتی اثر ڈالنے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے عائد کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیںامریکا نے روس پر نئی پابندیاں عائد کردیں، 10 سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ واشنگٹن اس کے علاوہ مزید کچھ کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

ان پابندیوں کا مقصد روس کی ڈالر، یورو، پاؤنڈ اور ین میں کاروبار کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنا ہے۔

پابندیوں کا ہدف روس کے 5بڑے بینک ہیں، جن میں ریاستی حمایت یافتہ سبر بینک اور وی ٹی بی بینک کے ساتھ ساتھ روسی اشرافیہ کے ارکان اور ان کے خاندان بھی شامل ہیں۔

روس کا سب سے بڑا قرض دہندہ سبر بینک اب امریکی بینکوں کی مدد سے رقم منتقل نہیں کر سکے گا۔

وائٹ ہاؤس نے روس پر برآمدی پابندیوں کا بھی اعلان کیا جس کا مقصد تجارتی الیکٹرانکس اور کمپیوٹرز سے لے کر سیمی کنڈکٹرز اور ہوائی جہاز کے پرزوں تک ہر چیز تک روس کی رسائی کو روکنا ہے۔

یورپی یونین کی روس پر پابندیاں

امریکا کے علاوہ یوکرین پر حملہ کرنے پر یورپی یونین نے بھی روس پر وسیع پیمانے پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹس کے مطابق یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے برسلز میں ہونے والی میٹنگ کے بعد کہا کہ پابندیوں کا ہدف مالیاتی شعبے، توانائی، ٹرانسپورٹ اور روسی اشرافیہ کے ویزے ہیں۔

ارسولا وان ڈیر لیین نے کہا کہ یہ اقدامات روس کے لیے اپنی آئل ریفائنریوں کو اپ گریڈ کرنے یا ہوائی جہاز کے اسپیئر پارٹس کے لیے ٹیکنالوجی خریدنا ناممکن بنا دیں گے۔

یہ بھی پڑھیںروس کا یوکرین پر حملہ، دفاعی اثاثے تباہ کرنے کا دعویٰ، مرکزی ایئرپورٹ کے قریب دھماکے

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ متعدد اور ٹارگٹڈ پابندیوں کی منظوری ظاہر کرتی ہے کہ یورپی یونین کتنی متحد ہے۔

ادھر نیوزی لینڈ نے بھی روسی حکومت کے اہلکاروں پر سفری پابندی عائد کر نے کے علاوہ روس کے ساتھ وزارت خارجہ کی دو طرفہ مشاورت معطل کر دی جبکہ روسی فوج اور سکیورٹی فورسز کو سامان کی برآمد بھی روک دی گئی۔

برطانیہ کے مالیاتی نطام سے روسی بینک خارج

برطانیہ کی جانب سے روس پر نئی پابندیوں کے تحت بڑے روسی بینکوں کو برطانیہ کے مالیاتی نظام سے خارج کر دیا جائے گا۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی جانب سے اعلان کردہ نئی پابندیوں میں اولیگارچز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے ہاؤس آف کامنز کو بتایا کہ یہ روس پر لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کا سب سے بڑا اور سخت ترین پیکج ہے۔

مزید پڑھیںیوکرین کے معاملے پر مغرب اور روس میں بڑے تصادم کا اشارہ

روس کی قومی ایئرلائن ایروفلوٹ کے برطانیہ میں لینڈنگ کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔

برطانیہ میں روسی شہریوں کے پیسے جمع کروانے پر حد مقرر کی جائے گی، روس کو فروخت کی جانے والی ٹیکنالوجی کے لیے بھی سخت برآمدی ضابطے ہوں گے۔

اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے آخری وقت تک سفارت کاری کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ان کا خیال ہے کہ ولادیمیر پیوٹن شروع سے ہی یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے پرعزم رہے۔

کینیڈا کے 460 فوجی نیٹو مشن میں تعینات

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے روس کے یوکرین پر بلا اشتعال اور بلا جواز حملے کی مذمت کی اور روس کے بینکوں اور ملک کی اشرافیہ سمیت 62 روسی اداروں اور افراد پر تازہ پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

اتحادی ملک امریکا کے ساتھ ساتھےکینیڈا نے بھی منگل کو روس پر اقتصادی پابندیوں کا پہلا مرحلہ نافذ کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیںامریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام، روس کے 4 شہریوں پر پابندی

کینیڈا نے مشرقی یورپ میں موجود نیٹو مشن میں کینیڈا کے 460 فوجی ارکان کو بھی تعینات کیا۔

جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا روس کی جارحیت کا زبردستی جواب دے گا، تاہم انہوں نےبراہ راست یوکرین میں فوج کی تعیناتی پر غور کرنے کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔

ایشیائی ممالک کی روس کو فوجی سامان کی برآمد پر پابندی

یوکرین پر روس کے مکمل حملے کے جواب میں ایشیا کے کئی ممالک نے روس کے خلاف پابندیاں عائد کردیں۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے کہا کہ وہ روس کے خلاف پابندیوں کو وسیع کریں گے، جس میں اس کے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے شہریوں اور قانون سازوں کو ہدف بنایا جائے گا۔

جاپان کے وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے کہا کہ وہ روس کے خلاف فوجی سازوسامان کی برآمدات سمیت 3 شعبوں پر پابندیاں عائد کریں گے۔

یہ بھی پڑھیںروس کو یوکرین میں کارروائی کیلئے ہماری حمایت درکار نہیں، چین

وزیر خزانہ جاپان شونیچی سوزوکی نے کہا کہ جاپان کئی روسی بینکوں کے اثاثے بھی منجمد کر دے گا۔

ادھر تائیوان نے تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ وہ بھی روس پر پابندیاں لگانے والےجمہوری ممالک کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔

خیال رہے کہ 24 فروری کو روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی افواج کو یوکرین کے مشرق میں آپریشن کا حکم دیا تھا، جس کے بعد یوکرین کے دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں روسی افواج نے میزائل برسائے اور فوجیں اتاریں جبکہ کیف نے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا ہے۔

پورٹس کے مطابق انہوں نے صبح 6 بجے سے کچھ دیر پہلے ٹیلی ویژن پر ایک حیران کن بیان میں کہا تھا کہ ‘میں نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے’۔

مزید پڑھیںروس کے حملے کے بعد یوکرین کے مناظر

ولادیمیر پیوٹن نے دوسرے ممالک کو خبردار کیا تھا کہ روس کی کارروائی میں مداخلت کی کوئی بھی کوشش ایسے نتائج کا باعث بنے گی جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔

انہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کو نیٹو میں شمولیت سے روکنے کے لیے روس کے مطالبات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور ماسکو کو سیکیورٹی کی ضمانتیں پیش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ روس کے اس فوجی آپریشن کا مقصد یوکرین کی ڈی ملٹرائزیشن کو یقینی بنانا ہے، ہتھیار ڈالنے والے تمام یوکرینی فوجی جنگی زون سے بحفاظت نکل سکیں گے۔

دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، ترک صدر رجب طیب اردوان نے روسی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس سےخطے کے امن کے لیے نقصان دہ قرار دیا.