روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چِھڑ چکی ہے جس کے
باعث دنیا بالخصوص یورپ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر ہے
دفاعی
اعتبار سے یوکرین کا روس سےکوئی موازنہ نہیں ہے، دنیا بھر میں عسکری قوت اور دفاعی
ساز و سامان کے اعتبار سے ملکوں کی درجہ بندی جاری کرنے والے عالمی ادارے گلوبل
فائر پاور اور آئی آئی ایس ایس ملٹری پاور کے اعداد و شمار کے مطابق روس دنیا کی
دوسری بڑی فوجی طاقت ہے جب کہ یوکرین کا نمبر 22 واں ہے۔
روس نہ
صرف دنیا کی دوسری بڑی عسکری طاقت ہے بلکہ اس کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار
بھی موجود ہیں تاہم یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ یوکرین کے پاس بھی کبھی
بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار تھے۔
خیال
رہےکہ یوکرین 1991 تک سوویت یونین کا حصہ تھا اور سوویت یونین سے
علیحدگی کے وقت یوکرین کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار موجود تھے جو کہ
تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں اس وقت تیسرے نمبر پر تھے، یہ ہتھیار سوویت یونین
کی جانب سے وہاں چھوڑے گئے تھے تاہم آزادی کے بعد یوکرین نے خود کو جوہری
ہتھیاروں سے پاک کرنےکا بڑا فیصلہ کیا۔
یوکرین
کے اس اقدام کے بدلے میں امریکا، برطانیہ اور روس نے 1994 میں یوکرین کی حفاظت
یقینی بنانے کا معاہدہ کیا جسے 'بڈاپسٹ میمورنڈم' کہا جاتا ہے۔
موجودہ
صورتحال میں جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ چکی ہے یہ معاہدہ پھر زیر بحث
ہے، ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنگ کے باعث یوکرین جوہری ہتھیار بنانے
کی طرف مائل ہوسکتا ہے اور جنگ کے دوران یوکرین کے جوہری پاور پلانٹ پر ہونے والا
کوئی بھی حملہ انتہائی خوفناک ثابت ہوسکتا ہے۔
تجزیہ
کاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی سربراہان کے درمیان کیا گیا یہ معاہدہ نظر انداز نہیں
کیا جاسکتا تاہم معاہدے کے ایک فریق یعنی روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد
دیکھنا یہ ہے کہ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکا اور برطانیہ کیا اقدام اٹھاتے ہیں،
2014 میں بھی کریمیا میں روس کی کارروائی کے بعد یہی سوالات اٹھائے گئے تھے۔
رپور ٹ
کے مطابق 2014 کے بعد سے یوکرینی عوام میں اس سوال نے جنم لیا ہے کہ
ان کے ملک نے جوہری اسلحے کی تخفیف کرکے عالمی امن کے لیے بڑا اقدام کیا
تاہم اس کے جواب میں ہمیں کیا مل رہا ہے۔
دفاعی
اعتبار سے یوکرین کا روس سےکوئی موازنہ نہیں ہے، دنیا بھر میں عسکری قوت اور دفاعی
ساز و سامان کے اعتبار سے ملکوں کی درجہ بندی جاری کرنے والے عالمی ادارے گلوبل
فائر پاور اور آئی آئی ایس ایس ملٹری پاور کے اعداد و شمار کے مطابق روس دنیا کی
دوسری بڑی فوجی طاقت ہے جب کہ یوکرین کا نمبر 22 واں ہے۔
روس نہ صرف دنیا کی دوسری بڑی عسکری طاقت ہے بلکہ اس کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں تاہم یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ یوکرین کے پاس بھی کبھی بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار تھے۔
خیال
رہےکہ یوکرین 1991 تک سوویت یونین کا حصہ تھا اور سوویت یونین سے
علیحدگی کے وقت یوکرین کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار موجود تھے جو کہ
تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں اس وقت تیسرے نمبر پر تھے، یہ ہتھیار سوویت یونین
کی جانب سے وہاں چھوڑے گئے تھے تاہم آزادی کے بعد یوکرین نے خود کو جوہری
ہتھیاروں سے پاک کرنےکا بڑا فیصلہ کیا۔
یوکرین کے اس اقدام کے بدلے میں امریکا، برطانیہ اور روس نے 1994 میں یوکرین کی حفاظت یقینی بنانے کا معاہدہ کیا جسے 'بڈاپسٹ میمورنڈم' کہا جاتا ہے۔
موجودہ
صورتحال میں جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ چکی ہے یہ معاہدہ پھر زیر بحث
ہے، ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنگ کے باعث یوکرین جوہری ہتھیار بنانے
کی طرف مائل ہوسکتا ہے اور جنگ کے دوران یوکرین کے جوہری پاور پلانٹ پر ہونے والا
کوئی بھی حملہ انتہائی خوفناک ثابت ہوسکتا ہے۔
تجزیہ
کاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی سربراہان کے درمیان کیا گیا یہ معاہدہ نظر انداز نہیں
کیا جاسکتا تاہم معاہدے کے ایک فریق یعنی روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد
دیکھنا یہ ہے کہ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکا اور برطانیہ کیا اقدام اٹھاتے ہیں،
2014 میں بھی کریمیا میں روس کی کارروائی کے بعد یہی سوالات اٹھائے گئے تھے۔
رپور ٹ
کے مطابق 2014 کے بعد سے یوکرینی عوام میں اس سوال نے جنم لیا ہے کہ
ان کے ملک نے جوہری اسلحے کی تخفیف کرکے عالمی امن کے لیے بڑا اقدام کیا
تاہم اس کے جواب میں ہمیں کیا مل رہا ہے۔