حدیث کے مطابق چوں کہ ’شبِ براءت‘ میں بے شمار گنہگار وں کی مغفرت
اور مجرموں کی بخشش ہوتی ہے اور عذابِ جہنم سے چھٹکارا اور نجات ملتی ہے، اس
لیے عُرف میں اس رات کا نام ’ شبِ براء ت‘ مشہور ہوگیاالبتہ حدیث شریف میں اس
رات کا کوئی مخصوص نام نہیںآیابلکہ لیلۃ النصف من شعبان یعنی شعبان کی
درمیانی شب کہہ کر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ (الفضائل والاحکام للشھور
والایام :۳۳)
شبِ برات میں کیاکیالکھا جاتاہے؟
امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ نے( مجھ سے
) فرمایا : کیا تم جانتی ہو کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویںشب میں کیا کیا
ہوتاہے؟حضرت عائشہ نے عرض کیا: کیاکیاہوتاہے اس رات میں اے اللہ کے رسول؟آپﷺ
نے ارشاد فرمایا: اولاد ِ آدم میں سے جو لوگ اس سال میں پیدا ہونے والے ہیں
وہ سب اس رات میں لکھے جاتے ہیں اور اولادِ آدم میں سے جولوگ اس سال میں مرنے
والے ہیں وہ سب اس رات میں لکھے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے اعمال اٹھا
ئے جاتے ہیں اور اسی رات میں ان کے رزق اتارے جاتے ہیں۔ (حضرت عائشہ فرماتی
ہیں کہ یہ سن کر)میں نے عر ض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ!اللہ تعالیٰ کی رحمت کے
بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گا؟ آپ ﷺفرمایا :نہیں ،اللہ تعالیٰ کی رحمت
کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گااور آپﷺ نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد
فرمائے الخ۔ (مشکوۃ:۱؍۱۱۵)
شبِ برات کی برتری کی ایک وجہ
اللہ سبحانہ تعالیٰ ہر شب آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور یہ رات کے
آخری تیسرے حصہ میں ہوتاہے لیکن پندرھویںشعبان کی شب میں اللہ تعالیٰ کا یہ
نزول رات کے آخری تیسرے حصے میں منحصر نہیں بلکہ سرِشام مغرب ہی کے وقت سے
صبح صادق تک آسمانِ دنیاپر نزولِ اجلال فرماتے ہیں اور اسی وجہ سے پندرھویں
شعبان کی یہ فضیلت وبرتری ہے۔ (ماثبت بالسنۃ: ۸۱)
شبِ قدر کے بعد افضل شب
ابن ماجہ میں ابی موسیؓ کی زبانی مرقوم ہے کہ کوئی رات، شبِ قدر کے بعد
پندرھویں شعبان کی شب سے زیادہ افضل نہیں ہے۔(ما ثبت بالسنۃ: ۸۱)
فرشتوں کی عید
جس طرح زمین پر مسلمانوںکی دو عیدیںہیں، اسی طرح آسمان پر فرشوں کی بھی دو
عیدیں ہوتی ہیں ۔ مسلمانوں کی زمین پر عیدیں (۱)عید الفطر اور(۲)عیدالاضحی ہو
تی ہیں اور فرشتوں کی عیدیں؛ (۱)شبِ برات اور (۲) شبِ قدر ہوتی ہیں۔ فرشتوں کی
عید یں رات میں ا س لیے ہوتی ہیں کہ وہ سوتے نہیں، انسان چوں کہ سوتے ہیں ، اس
لیے ان کی عیدیں دن میں ہوتی ہیں۔ (غنیۃ الطالبین: ۳۷۲)
شبِ برات اور خیر القرون
امتِ مسلمہ کے جو خیر القرون ہیں یعنی صحابۂ کرام کا دور، تابعین کا دور،
تبعِ تابعین کا دور، اس میں بھی شبِ برات کی فضیلت سے فایدہ اٹھانے کا اہتمام
کیا جاتا رہاہے۔ (اصلاحی خطبات: ۴؍۲۵۰)
شبِ برات اورعلماء
شام کے تابعی مثلاًخالدبن سعدان ؒ ،مکحولؒ اورلقمان بن عامرؒ وغیرہ اس رات کی
بہت تعظیم کرتے تھے اور اس رات میں عبادت کی بہت کوششیں کرتے تھے۔ (مجالس
الابرار: ۲۱۰)علامہ ابن تیمیہؒ بھی اس رات کی فضیلت کے قائل ہیں۔ (فتاویٰ ابن
تیمیہ :۲۳؍۱۳۱)
شب برات میں کیا ہوتاہے
جب شبِ برات آتی ہے تو بہت سے لوگ تو بازار میں اپنے کاروبار میں لگے ہوتے
ہیں اور اللہ کے یہاں ان کے کفن تیار ہورہے ہوتے ہیں، بعض کی قبریں کھودی
جارہی ہوتی ہیں اوروہ دنیا میں خوشی میں لگے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ مغرور اور
ہنسی کھیل میں مصروف ہوتے ہیں حالاں کہ وہ عنقریب ہلاک ہونے والے ہوتے ہیں،بہت
سے شان دار محل اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں،حالاں کہ ان کے مالک جلد ہی فنا ہوکر
خاک میں مل جانے والے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ ثواب کے امید وار ہوتے ہیں ، مگر
ان کے لیے عذاب نازل کیا جاتاہے ، بہت لوگ خوش خبری کی توقع لگائے ہوتے ہیں،
حالاں کہ انھیں نقصان پہنچتاہے، بہت سے لو گ بہشت کے امیدوار ہوتے ہیں،حالاں
کہ انھیں دوزخ نصیب ہوتی ہے، بہت سے لوگ وصل کی امید کر رہے ہوتے ہیں، حالاں
کہ ان کے لیے جدائی مقرر ہوتی ہے،بہت سے لوگ بخشش کی امید وار ہوتے ہیں، حالاں
کہ آخرکار ان پر بلا نازل ہوتی ہے،بہت سے لوگ بادشاہت حاصل کرنے پر یقین
رکھتے ہیں، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نصیب میں ہلاکت لکھی ہوتی ہے۔(غنیۃ
الطالبین:۳۷۳-۳۷۲ )
شبِ برات کی دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺ کو شبِ براء ت میں یہ دعا ء کرتے ہوئے
سنا ہے اس لیے ہمیں بھی یہ دعا کرنی چاہیے :
اَللّٰھُمَّ أعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ، وَأعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ
سَخَطِکَ، وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْکَ إلَیْکَ، لآ أُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ
کَمَا أثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ۔(شعب الایمان:۳۸۳۵)
اے اللہ! میں آپ کی پکڑ سے آپ کی درگزر کی پناہ مانگتا ہوںاور آپ کی
ناراضگی سے آپ کی رضامندی کی پناہ مانگتا ہوںاور آپ سے آپ ہی کی پناہ
مانگتا ہوں۔میں آپ کی مکمل حمد وثنا نہیں کرسکتا، آپ کی شان تو وہی ہے، جو
خود آپ نے بیان فرمائی ہے۔
پندرہویں شعبان میں قیام وصیام
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا : جب شعبان کی
پندرھویں رات ہوتواس میں قیام کرواور اس کے دن میں روزہ رکھو ، اس لیے کہ اللہ
تعالیٰ اس رات میں غروبِ آفتاب ہی سے آسمانِ دنیا پر( اپنی شان کے موافق
)نزول فرماتے ہیںاور فرماتے ہیں کہ’ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کی
مغفرت کردوں ؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو روزی دوں؟ ہے کوئی
مصیبت میں مبتلاکہ میں اس کو عافیت دوں ؟‘ اسی طرح اور بھی ندائیں جاری رہتی
ہیں، یہاں تک کہ صبح صادق ہو۔(ابن ماجہ: ۱۳۸۸ )
شبِ برا ت کے محرومین
خیال رہے کہ شبِ برات سے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان میں صراحت ہے کہ
اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنی مخلوق (بندوں )پر خصوصی فضل فرماکر بہت سوںکو
معاف فردیتے ہیںاور جہنم کی آگ سے نجات دے دیتے ہیں لیکن انھیں احادیث میں
بعض محرومین کا بھی ذکر ہے ، جو اس رات میں بھی بخشے نہیں جاتے اور ان گناہوں
سے توبہ کرنے تک لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
شرک کرنے والا۔ (ابن حبان: ۵۶۳۶)
کسی شخص کو ناحق قتل کرنے والا۔ (مسنداحمد :۶۶۴۲)
بلا شرعی وجہ کہ کسی سے تعلق ختم کرنے والا۔ (شعب الایمان: ۳۸۳۷)
اپنے کپڑوں کو ٹخنو ںسے نیچے لٹکانے والا۔(شعب الایمان: ۳۸۳۷)
والدین کی نافرمانی کرنے والا۔(شعب الایمان: ۳۸۳۷)
شراب کی عادت رکھنے والا۔ (شعب الایمان: ۳۸۳۷)
کسی کے لیے دل میں کینہ رکھنے والا۔(ابن حبان: ۵۶۳۶)
اللہ سبحانہ تعالیٰ تمام گناہوں سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور گناہوں
میں مبتلا لوگوں کو سچی توبہ کی تو فیق نصیب فرمائے اور اس رات کو ہم سب کے
لیے نجات و جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ بنائے۔ آمین
|