Shab-e-Baraat

GR SONS

 


حدیث کے مطابق چوں کہ ’شبِ براءت‘ میں بے شمار گنہگار وں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش ہوتی ہے اور عذابِ جہنم سے چھٹکارا اور نجات ملتی ہے، اس لیے عُرف میں اس رات کا نام ’ شبِ براء ت‘ مشہور ہوگیاالبتہ حدیث شریف میں اس رات کا کوئی مخصوص نام نہیںآیابلکہ لیلۃ النصف من شعبان یعنی شعبان کی درمیانی شب کہہ کر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ (الفضائل والاحکام للشھور والایام :۳۳)

شبِ برات میں کیاکیالکھا جاتاہے؟
امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ نے( مجھ سے ) فرمایا : کیا تم جانتی ہو کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویںشب میں کیا کیا ہوتاہے؟حضرت عائشہ نے عرض کیا: کیاکیاہوتاہے اس رات میں اے اللہ کے رسول؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اولاد ِ آدم میں سے جو لوگ اس سال میں پیدا ہونے والے ہیں وہ سب اس رات میں لکھے جاتے ہیں اور اولادِ آدم میں سے جولوگ اس سال میں مرنے والے ہیں وہ سب اس رات میں لکھے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے اعمال اٹھا ئے جاتے ہیں اور اسی رات میں ان کے رزق اتارے جاتے ہیں۔ (حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ یہ سن کر)میں نے عر ض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ!اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گا؟ آپ ﷺفرمایا :نہیں ،اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گااور آپﷺ نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے الخ۔ (مشکوۃ:۱؍۱۱۵)

شبِ برات کی برتری کی ایک وجہ
اللہ سبحانہ تعالیٰ ہر شب آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور یہ رات کے آخری تیسرے حصہ میں ہوتاہے لیکن پندرھویںشعبان کی شب میں اللہ تعالیٰ کا یہ نزول رات کے آخری تیسرے حصے میں منحصر نہیں بلکہ سرِشام مغرب ہی کے وقت سے صبح صادق تک آسمانِ دنیاپر نزولِ اجلال فرماتے ہیں اور اسی وجہ سے پندرھویں شعبان کی یہ فضیلت وبرتری ہے۔ (ماثبت بالسنۃ: ۸۱)

شبِ قدر کے بعد افضل شب
ابن ماجہ میں ابی موسیؓ کی زبانی مرقوم ہے کہ کوئی رات، شبِ قدر کے بعد پندرھویں شعبان کی شب سے زیادہ افضل نہیں ہے۔(ما ثبت بالسنۃ: ۸۱)

فرشتوں کی عید
جس طرح زمین پر مسلمانوںکی دو عیدیںہیں، اسی طرح آسمان پر فرشوں کی بھی دو عیدیں ہوتی ہیں ۔ مسلمانوں کی زمین پر عیدیں (۱)عید الفطر اور(۲)عیدالاضحی ہو تی ہیں اور فرشتوں کی عیدیں؛ (۱)شبِ برات اور (۲) شبِ قدر ہوتی ہیں۔ فرشتوں کی عید یں رات میں ا س لیے ہوتی ہیں کہ وہ سوتے نہیں، انسان چوں کہ سوتے ہیں ، اس لیے ان کی عیدیں دن میں ہوتی ہیں۔ (غنیۃ الطالبین: ۳۷۲)

شبِ برات اور خیر القرون
امتِ مسلمہ کے جو خیر القرون ہیں یعنی صحابۂ کرام کا دور، تابعین کا دور، تبعِ تابعین کا دور، اس میں بھی شبِ برات کی فضیلت سے فایدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہاہے۔ (اصلاحی خطبات: ۴؍۲۵۰)

شبِ برات اورعلماء
شام کے تابعی مثلاًخالدبن سعدان ؒ ،مکحولؒ اورلقمان بن عامرؒ وغیرہ اس رات کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس رات میں عبادت کی بہت کوششیں کرتے تھے۔ (مجالس الابرار: ۲۱۰)علامہ ابن تیمیہؒ بھی اس رات کی فضیلت کے قائل ہیں۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ :۲۳؍۱۳۱)

شب برات میں کیا ہوتاہے
جب شبِ برات آتی ہے تو بہت سے لوگ تو بازار میں اپنے کاروبار میں لگے ہوتے ہیں اور اللہ کے یہاں ان کے کفن تیار ہورہے ہوتے ہیں، بعض کی قبریں کھودی جارہی ہوتی ہیں اوروہ دنیا میں خوشی میں لگے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ مغرور اور ہنسی کھیل میں مصروف ہوتے ہیں حالاں کہ وہ عنقریب ہلاک ہونے والے ہوتے ہیں،بہت سے شان دار محل اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں،حالاں کہ ان کے مالک جلد ہی فنا ہوکر خاک میں مل جانے والے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ ثواب کے امید وار ہوتے ہیں ، مگر ان کے لیے عذاب نازل کیا جاتاہے ، بہت لوگ خوش خبری کی توقع لگائے ہوتے ہیں، حالاں کہ انھیں نقصان پہنچتاہے، بہت سے لو گ بہشت کے امیدوار ہوتے ہیں،حالاں کہ انھیں دوزخ نصیب ہوتی ہے، بہت سے لوگ وصل کی امید کر رہے ہوتے ہیں، حالاں کہ ان کے لیے جدائی مقرر ہوتی ہے،بہت سے لوگ بخشش کی امید وار ہوتے ہیں، حالاں کہ آخرکار ان پر بلا نازل ہوتی ہے،بہت سے لوگ بادشاہت حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نصیب میں ہلاکت لکھی ہوتی ہے۔(غنیۃ الطالبین:۳۷۳-۳۷۲ )

شبِ برات کی دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺ کو شبِ براء ت میں یہ دعا ء کرتے ہوئے سنا ہے اس لیے ہمیں بھی یہ دعا کرنی چاہیے :
اَللّٰھُمَّ أعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ، وَأعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْکَ إلَیْکَ، لآ أُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ کَمَا أثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ۔(شعب الایمان:۳۸۳۵)
اے اللہ! میں آپ کی پکڑ سے آپ کی درگزر کی پناہ مانگتا ہوںاور آپ کی ناراضگی سے آپ کی رضامندی کی پناہ مانگتا ہوںاور آپ سے آپ ہی کی پناہ مانگتا ہوں۔میں آپ کی مکمل حمد وثنا نہیں کرسکتا، آپ کی شان تو وہی ہے، جو خود آپ نے بیان فرمائی ہے۔

پندرہویں شعبان میں قیام وصیام
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا : جب شعبان کی پندرھویں رات ہوتواس میں قیام کرواور اس کے دن میں روزہ رکھو ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں غروبِ آفتاب ہی سے آسمانِ دنیا پر( اپنی شان کے موافق )نزول فرماتے ہیںاور فرماتے ہیں کہ’ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں ؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت میں مبتلاکہ میں اس کو عافیت دوں ؟‘ اسی طرح اور بھی ندائیں جاری رہتی ہیں، یہاں تک کہ صبح صادق ہو۔(ابن ماجہ: ۱۳۸۸ )

شبِ برا ت کے محرومین
خیال رہے کہ شبِ برات سے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنی مخلوق (بندوں )پر خصوصی فضل فرماکر بہت سوںکو معاف فردیتے ہیںاور جہنم کی آگ سے نجات دے دیتے ہیں لیکن انھیں احادیث میں بعض محرومین کا بھی ذکر ہے ، جو اس رات میں بھی بخشے نہیں جاتے اور ان گناہوں سے توبہ کرنے تک لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
شرک کرنے والا۔ (ابن حبان: ۵۶۳۶)
کسی شخص کو ناحق قتل کرنے والا۔ (مسنداحمد :۶۶۴۲)
بلا شرعی وجہ کہ کسی سے تعلق ختم کرنے والا۔ (شعب الایمان: ۳۸۳۷)
اپنے کپڑوں کو ٹخنو ںسے نیچے لٹکانے والا۔(شعب الایمان: ۳۸۳۷)
والدین کی نافرمانی کرنے والا۔(شعب الایمان: ۳۸۳۷)
شراب کی عادت رکھنے والا۔ (شعب الایمان: ۳۸۳۷)
کسی کے لیے دل میں کینہ رکھنے والا۔(ابن حبان: ۵۶۳۶)

اللہ سبحانہ تعالیٰ تمام گناہوں سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور گناہوں میں مبتلا لوگوں کو سچی توبہ کی تو فیق نصیب فرمائے اور اس رات کو ہم سب کے لیے نجات و جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ بنائے۔ آمین

 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شعبان سے متعلق ضعیف اور موضوع روایات:

ام المؤمنین سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:

شعبان میرا اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے.

تحقیق: یہ روایت موضوع ھے، حافظ سخاوی نے اسے مسند الفردوس کی طرف منسوب کیا، اسکی سند حسن بن یحیی الخشنی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے. الشیخ البانی رحمہ اللہ نے اسکو السلسلہ الضعیفہ جلد 8 صفحہ 222 حدیث 3746 میں درج کیا، مزید تفصیل کے لیے السلسلہ الضعیفہ دیکھیں.

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ ‏"‏ أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ ‏"‏

سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر موجود نہ پایا... (اللہ) اتنے لوگوں کی مغفرت کرتا ھے جتنے بنو کلب کی بکریوں کے بال ہیں
(حوالہ: جامع ترمذی، الصوم، حدیث 739)

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسکو ضعیف قرار دیا اور امام بخاری رحمہ اللہ سے بھی ضعیف قرار دینے کو نقل کیا. اس روایت کو حجاج بن ارطاۃ نے یحیی بن ابی کثیر سے نقل کیا مگر ان کا سماع ثابت نہیں، یہ روایت دو جگہ سے منقطع ہے ، شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسکو ضعیف کہا.

عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ قَالَ ‏ "‏ إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلاَّ لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ ‏"

روایت ہے، مفہوم:
اللہ تعالٰی نصف الشعبان کی رات اپنے بندوں پر نظر فرماتا ہے پھر مشرک اور مسلمان بھائی سے دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے.
(حوالہ: ابن ماجہ حدیث نمبر: 1390)

تحقیق: یہ روایت سخت ضعیف ہے اس میں ولید بن مسلم مدلس راوی، ابن لہیعہ ضعیف جبکہ ضحاک بن ایمن مجہول ہے. دوسری سند میں ابن لہیعہ ضعیف کے علاوہ زبیر بن سلیم اور عبدالرحمن بن عزرب دونوں مجہول ہیں.

اسی طرح ایک روایت ہے:
"جب شعبان کی پندرھویں رات آتی ہے تو اللہ تعالی اپنی مخلوق پر نظر ڈال کر مومنوں کو بخش دیتا ہے. کافروں کو مہلت دیتا ہے اور کینہ پروروں کو ان کے کینہ کی وجہ سے (ان کے حال پر) چھوڑ دیتا ہے... الخ
(حوالہ: فضائل الاوقات رقم 23)

یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اسکا بنیادی راوی احوص بن حکیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے التقریب التہذیب 290 میں کہا "ضعیف الحفظ" اسلۓ اس روایت سے استدلال جائز نہیں.

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ ‏ "‏ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا يَوْمَهَا ‏.‏ فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ أَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهُ أَلاَ مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلاَ مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ أَلاَ كَذَا أَلاَ كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ ‏"‏

"جب شعبان کی پندرھویں رات آۓ تو اس میں قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو. اس رات اللہ سورج غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے ... کیا کوئ مصیبت میں پھنساہواھے کہ اسے عافیت عطاکروں؟
(حوالہ: ابن ماجہ رقم الحدیث 1388)

تحقیق: اس روایت میں ابوبکر ابن ابی سبرۃ کذاب راوی ہے، دیکھۓ تقریب التہذیب 7973 اور ابراہیم بن محمد سخت ضعیف ہے. گویا یہ روایت موضوع (جھوٹ) درجہ کی ہے اور بالکل استدلال کے قابل نہیں.

روایت ھے، مفہوم:
نصف شعبان کی رات سال بھر میں پیدا ہونے والے اور مرنے والوں کے نام نوٹ کۓ جاتے ہیں اور لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کۓ جاتے ہیں اور اسی رات ان کا رزق بھی اترتا ھے."
(حوالہ: فضائل الاوقات رقم: 26)

یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں نضر بن کثیر سخت ضعیف راوی ہے، اور اس روایت سے استدلال جائز نہیں ہے-

 

 

 

 

 


نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں کئی احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات کو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کلب (قبیلے) کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیاد ہ لوگوں (کے گناہوں) کو بخش دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان احادیث کی وجہ سے بہت سے لوگ اس رات کو خاص طور پر غیر معمول عبادت کرتے ہیں، اس مضمون میں ان روایات کا جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
:محدث کبیر شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

“یطلع اللہ تبارک و تعالیٰ إلی خلقہ لیلۃ النصف من شعبان، فیغفر لجمیع خلقہ، إلا لمشرک أو مشاحن، حدیث صحیح، روي عن جماعۃ من الصحابۃ من طرق مختلفۃ یشد بعضھا بعضاً وھم معاذ بن جبل وأبو ثعلبۃ الخشني وعبداللہ بن عمرو وأبي موسی الأشعري وأبي ھریرۃ وأبي بکر الصدیق وعوف بن مالک و عائشۃ”

شعبان کی پندرھویں رات کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف (خاص طور پر) متوجہ ہوتا ہے پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے) دشمنی، بغض رکھنے والے کے سوا اپنی تمام (مسلمان) مخلوق کو بخش دیتا ہے (لسلسلۃ الصحیحۃ :
۱۳۵/۳ ح ۱۱۴۴)

:حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے (امام) مکحولؒ نے “عن مالک بن یخامر عن معاذ بن جبل رضي اللہ عنہ”کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: (یعنی یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں اسی سند کے ساتھ موجود ہے)
کتاب السنۃ لابن ابی عاصم (ح:
۵۱۲،دوسرا نسخہ:۵۲۴) صحیح ابن حبان (موارد الظمان:۱۹۸۰،الاحسان :۵۶۳۶)أمالي لأبي الحسن القزویني (۲/۴) المجلس السابع لأبي محمد الجوھري (۲/۳) جز ء من حدیث محمد بن سلیمان الربعی (۲۱۷/او۲۱۸/ا) الأمالي لأبي القاسم الحسینی(ق۱/۱۲) شعب الإیمان للبیھقي (۳۸۲/۳ ح ۳۸۳۳،۵/ح۶۶۲۸) تاریخ دمشق لابن عساکر (۱۷۲/۴۰، ۷۵/۵۷)الثالث والتسعین للحافظ عبدالغني المقدسي (ق۲/۴۴) صفات رب العالمین لابن أعجب (۲/۷، ۲/۱۲۹) المعجم الکبیر للطبراني(۱۰۸/۲۰، ۱۰۹ ح ۲۱۵) والأوسط لہ (۳۹۷/۷ ح ۶۷۷۲) حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني (۱۹۱/۵)
حافظ ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :“مکحول لم یلق مالک بن یخامر”
مکحول نے مالک بن یخامر سے ملا قات نہیں کی(الصحیحۃ:
۳/۱۳۵) یعنی یہ روایت منقطع ہے۔
نتیجہ : یہ سند ضعیف ہے ، اصول حدیث کی کتاب “تیسیر مصطلح الحدیث” میں لکھا ہو اہے کہ:

“المنقطع ضعیف بالاتفاق بین العلماء، وذلک للجھل بحال الراوي المحذوف"

علماء (محدثین) کا اس پر اتفاق ہے کہ منقطع (روایت ) ضعیف ہوتی ہے ، یہ اس لئے کہ اس کا محذوف راوی (ہمارےلئے) مجہول ہوتا ہے (ص
۷۸)

۲: حدیث ابی ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے احوص بن حکیم نے “عن مھاصر بن حبیب عن أبی ثعلبۃ رضي اللہ عنہ” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: کتاب السنۃ لابن أبی عاصم (ح
۵۱۱، دوسرا نسخہ ح ۵۲۳) کتاب العرش لمحمد بن عثمان بن أبي شیبۃ (ح۸۷ وعندہ: بشر بن عمارۃ عن الأحوص بن حکیم عن المھاصر بن حبیب عن مکحول عن أبي ثعلبۃ الخ) حدیث أبی القاسم الأزجی (۱/۶۷) شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ و الجماعۃ تصنیف اللالکائي(۴۴۵/۳ ح ۷۶۰) المعجم الکبیر للطبرانی (۲۲۴/۲۲ ح ۵۹۳)
اس کا بنیادی راوی احوص بن حکیم : جمہورمحدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر نے کہا”ضعیف الحفظ”(تقریب :
۲۹۰)
مھاصر (مھاجر) بن حبیب کی ابو ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔
تنبیہ: کتاب العرش میں مھاصر اور ابو ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مکحول کا واسطہ آیا ہے۔ اس کی سند میں بشر بن عمارہ ضعیف ہیں۔ (تقریب :
۸۹۷)
المعجم الکبیر للطبرانی (
۲۲۳/۲۲ ح ۵۹۰)میں المحاربی ، اس کا متابع ہے لیکن اس سند میں دو راوی احمد بن النضر العسکری اور محمد بن آدم المصیصی نا معلوم ہیں۔ عبدالرحمٰن بن محمد المحاربی مدلس ہے (طبقات المدلسین : ۳۸۳۲)
اسے بیہقی نے دوسری سند کے ساتھ “المحاربي عن الأحوص بن حکیم عن المھاجر بن حبیب عن مکحول عن أبي ثعلبۃ الخشني” کی سند سے روایت کیا ہے (شعب الإیمان:
۳۸۳۲)

۳: حدیث عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے حسن (بن موسیٰ) نے “حدثنا ابن لھیعۃ: حدثنا حیي بن عبداللہ عن أبي عبدالرحمٰن الحبلي عن عبداللہ بن عمرو” کی سند سے روایت کیا ہے (مسند احمد:
۱۷۶/۲ ح ۶۶۴۲)
یہ روایت عبداللہ بن لھیعہ کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن لھیعہ کی اختلاط کے لئے دیکھئے تقریب التہذیب (
۳۵۶۳) اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حسن بن موسیٰ نے ابن لھیعہ کے اختلاط سے پہلے اس سے حدیث سنی ہو۔
حافظ المنذری فرماتے ہیں :
”رواہ أحمد یاسناد لین“ اسے احمد نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (الترغیب و الترھیب
۴۶۰/۳ ح ۴۰۸۰، نیز دیکھئے ۱۱۹/۲ ح ۱۵۱۹)
محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
رشدین بن سعد نے ابن لھیعہ کی متابعت کی ہے (حدیث ابن حیویہ
۱۰/۳/ا والسلسلۃ الصحیحۃ ۱۳۶/۳)
عرض ہے کہ رشدین بن سعد بن مفلح المھری بذاتِ خود ضعیف ہے۔ دیکھئے تقریب التہذیب (
۱۹۴۲)
لہذا یہ روایت دونوں سندوں میں ضعیف ہی ہے ، حسن نہیں ہے۔

۴: حدیث ابی موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اسے ابن لھیعہ نے “عن الزبیر بن سلیم عن الضحاک بن عبدالرحمٰن عن أبیہ قال: سمعت أبا موسیٰ۔۔۔الخ” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: ابن ماجہ (
۲/۱۳۹۰) السنۃ لابن أبی عاصم (۵۱۰، دوسرا نسخہ ۵۲۲) السنۃ لللالکائی (۴۴۷/۳ ح ۷۶۳)

اس سند میں عبدالرحمٰن بن عرزب مجہول ہے (تقریب
۳۹۵۰) اسی طرح زبیر بن سلیم بھی مجہول ہے (تقریب ۱۹۹۶) بعض کتابوں میں غلطی کی وجہ سے ربیع بن سلیمان اور بعض میں زبیر بن سلیمان چھپ گیا ہے ۔
نتیجہ : یہ سند ضعیف ہے ۔
تنبیہ: ابن ماجہ کی دوسری سند (
۱/۱۳۹۰) میں ابن لھیعہ کے علاوہ ولید بن مسلم : مدلس اور ضحاک بن ایمن مجہول ہے (تقریب ۲۹۶۵) یہ سند بھی منقطع ہے لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے ۔

۵: حدیث ابی ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے ہشام بن عبدالرحمٰن نے “الأعمش عن أبي صالح عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ” کی سند سے روایت کیا ہے۔

تخریج: کشف الأستار عن زوائد البزار (
۴۳۶/۲ ح ۲۰۴۶) والعلل المتناھیۃ لابن الجوزي (۷۰/۲ ح ۹۲۱) اس کا روای ہشام بن عبدالرحمٰن نامعلوم العدالت یعنی مجہول ہے ۔
حافظ ہیثمی لکھتے ہیں کہ “ولم أعرفہ” اور میں اسے نہیں پہچانا (مجمع الزوائد
۶۵/۸)

نتیجہ: یہ سند ضعیف ہے۔

۶ : حدیث ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے عبدالملک بن عبدالملک نے “عن معصب بن أبي ذئب عن القاسم بن محمد عن أبیہ أو عمہ عن أبي بکر الصدیق رضی اللہ عنہ” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: کشف الأستار (
۴۳۵/۲ ح ۲۰۴۵) کتاب التوحید لابن خزیمۃ (ص۱۳۶ ح ۲۰۰) السنۃ لابن أبي عاصم (۵۰۹، دوسرا نسخہ ۵۲۱) السنۃ لللالکائی (۴۳۸/۳، ۴۳۹ ح ۷۵۰) أخبار أصبھان لأبی نعیم (۲/۲)والبیھقی (فی شعب الإیمان : ۳۸۲۷) اس سند میں عبدالملک بن عبدالملک پر جمہور محدثین نے جرح کی ہے۔
حافظ ابن حبا ن نے کہا : ”منکر الحدیث جداً“ یہ سخت منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے (کتاب المجروحین :
۱۳۶/۲)
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا :
”فیہ نظر“ یہ متروک و متہم ہے (التاریخ الکبیر
۴۲۴/۵) امام دارقطنی نے کہا “متروک” (سوالات البرقاني:۳۰۴)
معصب بن أ‏بي ذئب بھی غیر موثق و غیرمعروف ہے ، دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل (
۳۰۷/۸ ت ۱۴۱۸)
نتیجہ : یہ سند ضعیف ہے۔

۷: حدیث عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اس کی سند یہ ہےعن عبدالرحمٰن بن أنعم عن عبادۃ بن نسي عن کثیر عن مرۃ عن عوف بن مالک رضی اللہ عنہ۔
تخریج: کشف الأستار (
۴۳۶/۲ ح ۲۰۴۸) والمجلس السابع لأبی محمد الجوھری (الصحیحۃ: ۱۳۷/۳)
اس روایت میں عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ۔ حافظ ابن حجر نے کہا : “ضعیف فی حفظہ۔۔ وکان رجلاً صالحاً” (تقریب :
۳۸۶۲)

۸: حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

اسے حجاج بن ارطاۃ نے “عن یحیی بن أبي کثیر عن عروۃ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: سنن الترمذی(
۱۰۶/۱ ح ۷۳۹) ابن ماجہ (۱۳۸۹)احمد (۲۳۸/۶ ح ۲۶۵۴۶) ابن ابی شیبہ (المصنف ۴۳۸/۱۰ ۲۹۸۴۹) عبد بن حمید (۱۵۰۷) البیھقی فی شعب الإیمان (۳۸۲۴) والعلل المتناھیۃ (۶۶/۲ ح ۹۱۵)
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ:
“میں نے امام بخاری کو یہ فرماتے سنا کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، اسے یحییٰ (بن ابی کثیر ) نے عروہ سے نہیں سنا اور نہ حجاج بن ارطاۃ نے اسے یحییٰ سے سناہے” (الترمذی :
۷۳۹)

حجاج بن ارطاۃ ضعیف عندالجمہور اور مدلس راوی ہے ، یحییٰ بن ابی کثیر بھی مدلس ہیں۔

نتیجہ : یہ سند ضعیف ہے، اس روایت کے تین ضعیف شواہد بھی ہیں:
اول: العلل المتنا ھیہ (
۶۷/۲، ۶۸ ح ۹۱۷)
اس میں سلیمان بن ابی کریمہ ضعیف ہے وہ منکر روایات بیان کرتا تھا، دیکھئے لسان المیزان (
۱۰۲/۳)
دوم: العلل المتناھیہ (
۶۸/۲، ۶۹ ح ۹۱۸(
اس میں سعید بن عبدالکریم الواسطی کا ثقہ ہونا نامعلوم ہے، دیکھئے لسان المیزان (
۳۶/۳)
سوم : العلل المتنا ھیہ (
۶۹/۲ ح ۹۱۹)

اس میں عطاء بن عجلان کذاب و متروک ہے دیکھئے الکشف الحثیث عمن رمي بوضع الحدیث (ص
۲۸۹) تقریب التہذیب (۴۵۹۴) خلاصہ یہ ہے کہ یہ تینوں شواہد مردود ہیں۔
۹: حدیث علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے ابن ابی سبرہ نے “عن ابراھیم بن محمد عن معاویۃ بن عبداللہ بن جعفر عن أبیہ عن علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ” کی سند سے بیان
کیا ہے۔

تخریج : ابن ماجہ (
۱۳۸۸) العلل المتناھیۃ (۷۱/۲ ح ۹۲۳)
اس میں ابوبکر بن ابی سبرۃ کذاب ہے دیکھئے تقریب التہذیب (
۷۹۷۳)
نتیجہ : یہ روایت موضوع ہے ۔

تنبیہ : سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مفہوم کی دیگر موضوع روایات بھی مروی ہیں۔ دیکھئے الموضوعات لابن الجوزی (
۱۲۷/۲) میزان الاعتدال (۱۲۰/۳) واللآلی المصنوعۃ(۶۰/۲)

۱۰: حدیث کردوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے عیسیٰ بن ابراھیم القرشی نے “عن سلمۃ بن سلیمان الجزري عن مروان بن سالم عن ابن کردوس عن أبیہ“کی سند سے بیان کیا ہے (کتاب العلل المتناھیۃ :
۷۱/۲ ، ۷۲ ح ۹۲۴)

اس میں عیسیٰ بن ابراھیم منکر الحدیث متروک ہے، مروان بن سالم متروک متہم ہے اور سلمۃ کا ثقہ ہونا نامعلوم ہے۔
نتیجہ: یہ سند موضوع ہے۔

۱۱: حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے صالح الشمومی نے “عن عبداللہ بن ضرار عن یزید بن محمد بن أبیہ محمد بن مروان عن ابن عمر رضی اللہ عنہ“کی سند سے روایت کی ہے (الموضوعات لابن الجوزی
۱۲۸/۲)
اس سند میں صالح ، عبداللہ بن ضرار ، یزید اور محمد بن مروان سب نامعلوم العدالت یعنی مجہول ہیں ، حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ: ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے (الموضوعات
۱۲۹/۲)

۱۲: حدیث محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ

اسے علی بن عاصم (ضعیف ) نے “عمرو بن مقدام عن جعفر بن محمد بن أبیہ” کی سند سے روایت کیا ہے (الموضوعات :
۱۲۸/۲، ۱۲۹) عمرو بن ابی المقدام رافضی مترو ک راوی ہے، سیوطی نے کہا : یہ سند موضوع ہے (الللآلی المصنوعۃ ۵۹/۲) علی بن عاصم سے نیچے والی سند میں بھی نظر ہے۔

۱۳: حدیث ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے ابن عساکر نے نامعلوم رایوں کے ساتھ “محمد بن حازم عن الضحاک بن مزاحم عن أبي بن کعب” کی سند سے بیان کیا ہے ، دیکھئے زیل الللآلی المصنوعۃ (ص
۱۱۲، ۱۱۳) یہ روایت منقطع ہونے کے ساتھ موضوع بھی ہے۔

۱۴: مکحول تابعی رحمہ اللہ کا قول

امام مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
“إن اللہ یطلع علی أھل الأرض فی النصف من شعبان فیغفرلھم إلا لرجلین إلا کافراً أو مشاحن”

پند رہ شعبان کو اللہ تعالیٰ زمین والوں کی طرف (خاص طور پر) متوجہ ہوتا ہے پھر وہ، کافر اور ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے والوں کے سوا سب لوگوں کو بخش دیتا ہے (شعب الإیمان للبیہقی
۳۸۱/۳ ح ۳۸۳۰)
یہ سند حسن ہے لیکن یہ حدیث نہیں ہے بلکہ امام مکحول کا قول ہے ۔ معلوم ہوا کہ مکحول کے قول کو ضعیف و مجہول رایوں نے مرفوع حدیث کے طو رپر بیان کر رکھا ہے ، مکحول کے قول کو مرفوع حدیث بنا دینا صحیح نہیں ہے اور اگر بنا دیا جائے تو مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔

خلاصہ التحقیق: پندرہ شعبان والی کوئی روایت بھی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔

محققین کا فیصلہ: ابوبکر بن العربی (جو چوتھی صدی فقیہ تھے) لکھتے ہیں: “ولیس فی لیلۃ النصف من شعبان حدیث یعول علیہ لا فی فضلھا ولا فی نسخ الآجال فیھا، فلا تلتفتواإلیھا” یعنی: نصف شعبان کی رات اور فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث قابلِ اعتماد نہیں ہے اور اس رات کو موت کے فیصلے کی منسوخی کے بارے میں کوئی حدیث قابلِ اعتماد نہیں ہے، پس آپ ان (ناقابلِ اعتماد ) احادیث کی طرف (ذرہ بھی) التفات نہ کریں۔(احکام القرآن
۱۶۹۰/۴)

حافظ ابن القیم لکھتے ہیں :لا یصح منھا شئي یعنی پندرہ شعبان کی رات
کو خاص نمازوں والی روایتوں میں سے کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہے (المنار المنیف ص
۹۸، ۹۹)

حافظ ابن القیم مزید فرماتے ہیں کہ:
“تعجب ہے اس شخص پر ، جس کو سنت کی سوجھ بوجھ ہے، وہ بھی یہ ھذیان سن کر ایسی (عجیب و غریب) نماز پڑھتا ہے (یعنی سو رکعت ایک ہزار سورہ اخلاص کے ساتھ)(ایضاً ص
۹۹)

حسن لغیرہ:

محدث کبیر شیخ البانی رحمہ اللہ نے پندرہ شعبان والی روایت کو تعدد طرق کی وجہ سے “صحیح” قرار دیا ہے ۔ حالانکہ یہ روایت “صحیح لغیرہ” کے درجہ تک نہیں پہنچتی ، اس کی ایک سند بھی صحیح یا حسن لذاتہ نہیں ہے تو یہ کسطرح صحیح لغیرہ بن گئی؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ روایت حسن لغیرہ ہے، عرض ہے کہ حسن لغیرہ کی دو قسمیں ہیں:

۱: ایک ضعیف سند والی روایت بذاتِ خود ضعیف ہے ، جبکہ دوسری روایت حسن لذاتہ ہے، یہ سند اس حسن لذاتہ کے ساتھ مل کر حسن ہوگئی۔
۲: ایک ضعیف سند والی روایت بذاتِ خود ضعیف ہے اور اس مفہوم کی دوسری ضعیف روایات موجود ہیں، بعض علماء اسے حسن لغیرہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے ۔

دلیل نمبر
۱: قرآن و حدیث و اجماع سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہے کہ ضعیف + ضعیف +ضعیف=حسن لغیرہ۔ کا حجت ہونا ثابت ہو۔

دلیل نمبر
۲: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔

دلیل نمبر
۳: تابعین کرام رحمہم اللہ سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔

دلیل نمبر
۴: امام بخاری و امام مسلم رحمہم اللہ وغیرہ سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔

دلیل نمبر
۵: امام ترمذی رحمہ اللہ کے علاوہ عام محدثین سے ایسی “حسن لغیرہ” روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔

مثلاً محمد بن ابی لیلیٰ (ضعیف) نے “عن أخیہ عیسی عن الحکم عن عبدالرحمٰن بن أبي لیلیٰ عن البراء بن عازب ” ترکِ رفعیدین کی ایک حدیث بیان کی ہے (سنن ابی داؤد:
۷۵۲) اس کی سند ضعیف ہے۔ اور اس کے متعدد ضعیف شواہد ہیں مثلاً دیکھئے سنن ابی داؤد (۷۴۸،۷۴۹) ان تمام شواہد کے باوجود امام ابوداؤد فرماتےہیں: “ھذا الحدیث لیس بصحیح” یہ حدیث نہیں ہے۔ (ابوداؤد :۷۵۲)

عام نماز میں ایک طرف سلام پھیرنے کی کئی روایات ہیں، دیکھئے الصحیحۃ للشیخ الألبانی رحمہ اللہ (
۵۶۴/۱۔ ۵۶۶ح۳۱۶) ان میں سے ایک روایت بھی صحیح یا حسن لذاتہ نہیں ہے۔

ان روایات کے بارے میں حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں:
”إلا أنھا معلولۃ ولا یصححھا أھل العلم بالحدیث“
مگر یہ سب روایات معلول (ضعیف) ہیں، علمائے حدیث انہیں صحیح قرار نہیں دیتے۔ (زاد المعادج
۱ ص ۲۵۹)

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ:
”ولکن لم یثبت عنہ ذلک من وجہ صحیح”
لیکن آپ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ) سے صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں ہے (ایضاً ص
۲۵۹)

دلیل نمبر
۶: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

”یکفی في المناظرۃ تضعیف الطریق التي أبداھا المناظر و ینقطع، إذا لأصل عدم ما سواھا، حتی یثبت بطریق أخری، واللہ أعلم “

یعنی: مناظرے میں یہ کافی ہے کہ مخالف کی بیان کرد ہ سند کا ضعیف ہونا ثابت کردیا جائے ، وہ لاجواب ہوجائے گا کیونکہ اصل یہ ہے کہ دوسری تمام روایات معدوم (وباطل) ہیں الا یہ کہ دوسر ی سند سے ثابت ہوجائیں، واللہ اعلم

(اختصار علوم الحدیث ص
۸۵ نوع:۲۲، دوسرا نسخہ ۲۷۴/۱ ، ۲۷۵وعنہ نقلہ السخاوی فی فتح المغیث ۲۸۷/۱ فی معرفۃ من تقبل روایتہ ومن ترد)

دلیل نمبر
۷: ابن القطان الفاسی نے حسن لغیرہ کے بارے میں صراحت کی ہے کہ:

”لا یحتج بہ کلہ بل یعمل بہ فی فضائل الأعمال۔۔۔۔۔“ الخ
اس ساری کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی بلکہ فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جاتا ہے (النکت علی کتاب ابن الصلاح:
۴۰۲/۱)

دلیل نمبر
۸: حافظ ابن حجر نے ابن القطان کے قول کو ”حسن قوی“ قرار دیا ہے (النکت ۴۰۲/۱)

دلیل نمبر
۹: حنفی و شافعی وغیرہ علماء جب ایک دوسرے پر رد کرتے ہیں تو ایسی حسن لغیرہ روایت کو حجت تسلیم نہیں کرتے مثلاً کئی ضعیف سندون والی ایک روایت “من کان لہ إمام فقراءۃ الإمام لہ قراءۃ” کے مفہوم والی روایت کو علامہ نووی نے ضعیف قرار دیا ہے (خلاصہ الاحکام ج۱ ص۳۷۷ ح ۱۱۷۳ ، فصل فی ضعیفہ)کئی سندوں والی فاتحہ خلف الامام کی روایات کو نیمومی حنفی نے معلول وغیرہ قرار دے کر رد کردیا ہے ، دیکھئے آثار السنن (ح ۳۵۶،۳۵۵،۳۵۴،۳۵۳)

دلیل نمبر
۱۰: جدید دور میں بہت سے علماء کئی سندوں والی روایات ، جن کا ضعف شدید نہیں ہوتا، پر جرح کرکے ضعیف و مردود قرار دیتے ہیں مثلاً “محمد بن إسحاق عن مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادۃ بن الصامت “ والی روایت ، جس میں فاتحہ خلف الامام کا ثبوت موجود ہے، کے بارے میں محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”ضعیف” (تحقیق سنن ابی داؤد:۸۲۳ مطبوعۃ مکتبۃ المعارف، الریاض)

حالانکہ اس روایت کے بہت سے شواہد ہیں دیکھئے کتاب القرأت للبیہقی و الکواکب الدریۃ فی وجوب الفاتحۃ خلف الامام فی الجھریۃ ، ان کئی سندوں و شواہد کے باوجود شیخ البانی رحمہ اللہ اسے حسن لغیرہ (!) تک تسلیم نہیں کرتے ۔ (حالانکہ فاتحہ خلف الإمام والی روایت حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے والحمد للہ)

خلاصہ یہ ہے کہ نصف شعبان والی روایت ضعیف ہے ۔

آخر میں عرض ہے کہ پندرھویں شعبان کو خاص قسم کی نماز مثلاً سو (
۱۰۰) رکعتیں مع ہزار (۱۰۰۰) مرتبہ سورہ اخلاص ، کسی ضعیف روایت میں بھی نہیں ہے ۔ اس قسم کی تمام روایات موضوع اور جعلی ہیں۔

تنبیہ: نزول باری تعالیٰ ہر رات پچھلے پہر ہوتا ہے جیسا کہ صحیحین و غیرھما کی متواتر احادیث سے ثابت ہے، ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور اس کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں، وہی بہتر جانتا ہے۔
وما علینا إلاالبلاغ