The hardest job in the world?

GR SONS

 

 

ادھار دینے والا اپنی رقم یوں مانگ رہا ہوتا ہے جیسے وہ خود قرض دار ہو۔

یہ دنیا مشکل کاموں سے بھری پڑی ہے اور ان کاموں کو سر انجام دینے والے اپنے تن، من اور دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔ بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنا ہو، موٹر اسپورٹس میں تیز رفتار گاڑیاں دوڑانا، خطرناک مجرموں کو جان جوکھم میں ڈال کر پکڑنا، موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانا یا جنگوں میں حصہ لینا، یہ سب بے شک بہت مشکل کام ہیں۔ مگر میرے خیال میں اس وقت دنیا کا سب سے مشکل کام ہے ’’کسی سے اپنے پیسے نکلوانا‘‘۔

اگر آپ نے ایک بار کسی کو اپنے پیسے دے دیے تو پھر اس سے واپس لینا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ پھر نہ آپ کی التجائیں کام آئیں گی، نہ دھونس دھمکی، نہ کوئی اور طریقہ کارگر ثابت ہوگا۔ لینے والا بھی کسی آسکر ایوارڈ یافتہ ایکٹر سے کم اداکاری کے جوہر نہیں دکھائے گا۔

اگر یہ کہا جائے کہ ہم میں سے اکثر کا اس چیز سے زندگی میں ایک دفعہ ضرور واسطہ پڑتا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ کسی کا تو ایک سے زیادہ مرتبہ پالا پڑتا ہے۔ اب اس کو سادگی کہیے یا بیوقوفی، اکثریت کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پیسے دیے ہوتے ہیں۔ اگر ایک بار پیسے آپ کی جیب سے نکل کر دوسرے کی جیب میں چلے گئے تو یقین کیجیے ایک تھکا دینے والا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ آپ اپنے پیسے ایسے واپس مانگ رہے ہوتے ہیں جیسے قرض دار آپ ہیں، اور لینے والا ایسے اکڑ رہا ہوتا ہے جیسے آپ اس سے ادھار مانگ رہے ہیں۔

پہلے تو پیسے مانگنے کےلیے ایسے ایسے طریقے اپنائے جاتے ہیں کہ دینے والا یقین کرلیتا ہے واقعی اس سے زیادہ ضرورت مند اس وقت پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ پھر تقاضا کرنے پر ایسے حیلے اور بہانے تراشے جاتے ہیں کہ الله کی پناہ اور شروع سے ہی واپس نہ کرنے کی نیت ہوتی ہے۔ گویا پیسے اپنا حق سمجھ کر لیے جاتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب پیسے لینے والے کی راتوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہوتی تھیں اور اب دینے والے کی۔ غم کے پہاڑ تو تب ٹوٹتے ہیں جب دینے والے نے اپنی ضرورتوں کو روک کر پیسے دیے ہوتے ہیں اور لینے والا نہ صرف یہ کہ واپسی ٹال رہا ہوتا ہے بلکہ اس کی عیاشی سب پر عیاں ہوتی ہے۔ مہنگے کھانے کھائے جارہے ہوتے ہیں، بچے اعلیٰ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں، نت نئے ماڈل کی گاڑیاں خریدی جارہی ہوتی ہیں اور بیگم صاحبہ نئے ملبوسات اور زیورات سے اپنے آپ کو آراستہ کر رہی ہوتی ہیں۔ اس وقت سوائے اپنے آپ کو کوسنے کے آپ کچھ نہیں کرسکتے۔

یہ کردار عموماً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور ان کا طریقہ واردات بھی۔ چھوٹا کھلاڑی ایک ہی دفعہ رقم لیتا ہے اور جو تجربہ کار لوگ ہوتے ہیں وہ پہلے اپنا اعتماد بحال کرتے ہیں، پھر کھل کر سامنے آتے ہیں۔ شروع شروع میں وقت سے پہلے واپسی، پھر وقت پر، پھر غائب۔ واپسی کے تقاضے پر جو کہانیاں سنائی جاتی ہیں اچھے اچھے اس کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ یعنی کوئی غیر متوقع مجبوری، کبھی مزید وقت کی مہلت، کبھی بس اگلے مہینے واپس کرنے کا وعدہ، تو کبھی آپ سے زیادہ پرانے متقاضی لوگوں کی واپسی کے بعد آپ کا نمبر آنے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ کبھی کاروبار میں نقصان، تو کبھی تنخواہ نہ ملنے کا شکوہ… غرض اس سے زیادہ مجبور انسان شاید ہی اس کرۂ ارض پر کوئی ہو اور آپ اس امید میں ہی رہ جاتے ہیں کہ اگلی مرتبہ ہی سہی مگر وہ اگلا موقع کبھی نہیں آتا۔

حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ لینے والے کو یہ سب کرتے ہوئے شرمندگی تو درکنار، اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ اگر کسی محفل میں ٹکرا جائیں تو ایسے بن جاتے ہیں جیسے آپ کو جانتے ہی نہیں۔ کچھ اپنی چرب زبانی سے آپ کو رام کرکے دم لیتے ہیں۔ اگر اچانک کہیں ملاقات ہوجائے تو وہی روایتی بہانہ کہ بس آپ ہی کی طرف آرہا تھا۔ آپ گھر پہنچیے میں ابھی بندوبست کرکے آپ کی رقم آپ کو خود پہنچاؤں گا۔ لیکن آپ کی یہ خوشی بھی عارضی ثابت ہوتی ہے۔

سب سے زیادہ تکلیف دہ امر تو وہ ہوتا ہے جب آپ کی یکمشت دی ہوئی رقم کو ٹکڑوں میں واپس کیا جاتا ہے۔ کچھ اقساط کی ادایئگی کرکے آپ کو خوش کیا جاتا ہے اور پھر وہ سلسلہ بھی منقطع ہوجاتا ہے۔ کچھ تو تقاضا کرنے پر ایسی کھری کھری سناتے ہیں کہ آپ کو چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ہے اور الٹا آپ ہی شرمندہ ہوجاتے ہیں۔ اور بعض تو یہ طعنہ مارتے ہیں کہ نہ وہ کہیں جا رہے ہیں نہ آپ کے پیسے۔ کچھ تو یہ کہہ کر آپ کی غیرت کو شدید ٹھیس پہنچاتے ہیں کہ ایک بار پیسے آنے دو، سب سے پہلے تمہارے منہ پر ماروں گا۔ شاید وہ بے تکلفی میں ایسا کہتے ہیں، مگر کیا پھر بھی کسی تکلف کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟

آپ کو یہ بات پڑھ کر شدید حیرت ہوگی کہ یہ بیماری صرف ہمارے ہاں ہی نہیں گوروں میں بھی پائی جاتی ہے اور کم و بیش یہی واقعات آپ کو ان کے ہاں بھی سننے کو ملیں گے۔ میں اکثر مختلف آن لائن فورمز پر اسی طرح کے واقعات پڑھتا ہوں، بس نوعیت ذرا مختلف ہوتی ہے۔ چونکہ معاشرہ مہذب ہے تو پیسے تو سچ بول کر لیے جاتے ہیں اور دینے والے کو پوری امید ہوتی ہے کہ اس کے پیسے اس کو واپس ضرور مل جائیں گے مگر واپسی پر وہی تمام حربے اپنائے جاتے ہیں جو ہمارے ہاں عام ہیں۔ زیادہ تر پیسے پراپرٹی خریدنے کےلیے جو کمی بیشی ہوتی ہے اس کو پورا کرنے کےلیے مانگے جاتے ہیں۔ طرزِ زندگی کیونکہ سب کا ہی اچھا ہوتا ہے، اسی لیے دینے والے کو کم از کم اس بات کا دکھ تو نہیں ہوتا کہ اس کے پیسوں سے عیاشی کی جارہی ہے، مگر واپس نہ ملنے کا غم تو ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک صارف نے نہایت خوبصورت بات کہی کہ جب آپ کسی کو ادھار دے رہے ہوتے ہیں تو دراصل ایک دوست کھو رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ پیسے دیتے ہی آپ کی دوستی ایک جھٹکے میں ختم جاتی ہے۔ ایک اور شخص نے لکھا کہ جب آپ کسی کو اپنے پیسے ادھار دیتے ہیں تو وہ اس کے ہوجاتے ہیں، آپ کے نہیں رہتے۔ پاکستان میں بھی اس پر کافی اقوال زریں کہے گئے ہیں جیسے ادھار ایک ایسا جادو ہے جو لیتا ہے وہ غائب ہوجاتا ہے۔ نقد بڑے شوق سے ادھار اگلے چوک سے، کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے اور ادھار مانگ کر شرمندہ نہ ہوں۔

سوال و جواب کی مشہور ویب سائٹ ’’کیو اورا‘‘ میں ایک گورے نے اپنا تجربہ لکھا کہ اس نے اپنے ایک دوست کو کچھ رقم ادھار دی اور پھر پچھتاوا اس کا مقدر بنا۔ وہ واپسی کےلیے اس کے پیچھے بھاگتا رہا یہاں تک کہ تنگ آکر اس نے التجا کی کہ تم جتنے پیسے دے سکتے ہو اتنے ہی دے دو۔ ادھار میں دی گئی رقم غالباً تین ہزار ڈالر تھی اور پندرہ سو ڈالر واپس کرنے پر اتفاق ہوگیا- پانسہ اس وقت پلٹ گیا جب رقم بھیجتے وقت غلطی سے ایک اضافی صفر لگ گیا اور پندرہ ہزار ڈالر اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوگئے۔ آج لینے والا دینے والے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔

بہت کم لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو اس کام میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ شاید آٹے میں نمک کے برابر ہوں۔ یہاں تو بڑے سے بڑا بدمعاش بھی ہار جاتا ہے۔ چونکہ پیسے لینے والے زیادہ تر جاننے والے ہی ہوتے ہیں، لہذا کوئی لکھت پڑھت بھی نہیں ہوتی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنی صلاحیتوں سے اس مشکل ترین کام کو سر انجام دے سکتے ہیں تو کسی کو پیسے دے کر دیکھ لیجئے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

a