سکون سے رہیں، سکون سے رہنے دیں
ذرا سوچیں...
کیا یہ ضروری ہے کہ ہم ہر ملاقات میں ہر ٹیلیفونک گفتگو میں دوسرے کے کمزور پہلوؤں کو ہی چھیڑیں؟
تمہاری بچی کا ابھی تک رشتہ نہیں ہوا؟
بچے کو نوکری نہیں ملی؟
تمہاری شادی کو اتنا عرصہ ہوگیا ابھی تک کوئی خوشخبری نہیں سنا رہے؟
پانچ سالوں میں بس ایک ہی بچہ
رشتے سے انکار کیوں کر دیا؟
یہ تمہارے چہرے پہ اتنے دانے کیوں نکل آۓ؟
پہلے تو اتنا پیارا سا چہرہ تھا
اتنے موٹے کیوں ہو گئے ہو؟
پہلے اتنا بہترین جسم تھا تمہارا
یہ تمہارے بالوں کو کیا ہوگیا ہے؟
!ذرا سوچیے
آپ کے پاس اگر یہ سب نعمتیں ہیں تو کیا اس میں آپ کا اپنا کمال ہے؟
آپ کے بچہ یا بچی کا رشتہ ہوگیا تو کیا آپ کا اپنا کمال ہے؟
شاید آپ کے ارد گرد آپ کی مدد کرنے والے اور سمجھانے والے لوگ
موجود تھے صرف باتیں اور چسکے لینے والے نہیں یا ایسے لڑکے اور
لڑکیاں بھی موجود ہیں جو باہر گلیوں بازاروں اور سڑکوں پر آوارہ
پھر کر رشتے خود ڈھونڈتے ہیں اور شریف اولاد والدین پر بھروسہ
کرتی ہے۔
آپ کے بچے اعلیٰ عہدوں پہ نوکریوں پہ لگ گئے کیا یہ آپ کا اپنا کمال ہے؟
نہیں بالکل بھی نہیں کیونکہ اللّٰہ رب العزت کی ذات جو جانتی
ہے کہ کونسی چیز کس انسان کو کس وقت میں دینی ہے۔ وہ ذات جانتی ہے کس کے صبر کو کس طرح اور کتنا آزمانہ ہے اور کس کے شکر کو کس طرح جانچنا ہے اور نہ ہی آپ کسی کے گھر کے مسائل کو جانتے ہیں۔
!یاد رکھیے
کبھی کسی کے بیٹے نے اپنے گھر کو بنانے کی خاطر اپنی پوری
زندگی خراب کر دی ہوتی ہے تو کبھی کسی بیٹی نے اپنے ماں
باپ کی مجبوریوں کی بنا پر شادی نہیں کی ہوتی۔ اور کہیں
والدین اپنی زندگی کی رعنائیوں میں اتنے مگن ہوجاتے ہیں کہ
بچوں کے مستقبل کا خیال ہی نہیں رہتا تو کہیں حالات کی
مجبوریاں انسان کو ختم کر دیتی ہیں۔
اپنے آپ پر اتنا غرور مت کریں کہ کہیں آپ کا غرور آگے چل کر
خاک میں مل جائے اور آپ کو آپ کی اولاد تگنی کا ناچ نچا دے۔
جتنی بڑی آزمائش اتنا اجر عظیم یہ رب العالمین کا وعدہ ہے۔
لہٰذا یہ آپ کا کام نہیں ہے
اور کیا کبھی آپ کو یہ سوال کرتے ہوئے اگلے کے چہرے کی اذیت نظر نہیں آتی؟
اگر ہو سکے تو کسی کا وسیلہ اور سہارہ بنیں اگر وسیلہ اور سہاری نہیں بن سکتے تو باتیں مت کریں۔
کیا ایسے کمزور شخص کی بے بسی آپ دیکھتے نہیں؟
یقیناً کمزوریاں سب کو نظر آتی ہو گی لیکن کچھ لوگ محض
اپنے چسکے اور اپنے دل کی اس فضول ترین تسکین کے لئے ایسا
کرتے ہیں۔ کسی بھی بچے کے منفی پہلوؤں کو کبھی بھی نہیں
اچھالنا چاہیے نہ ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے چاہیے جن
کا تعلق انسان کی قسمت کے ساتھ ہوتا ہے۔
(رشتہ کیوں نہیں ہو رہا کیوں ٹوٹ گیا نوکری نہیں ملی) میرے
سامنے بیٹھ کے جب کوئی دوسرا اس معاملے کے بارے میں سوال و
جواب کرتا ہے تو سامنے والے چہرے کی اذیت نہیں دیکھی جاتی۔
سوال کرنے والا اتنا بےحس کیوں ہو جاتا ہے؟
اگر ان سب چیزوں کا دباؤ ہوتے ہوئے بھی آپ سے کوئی ملاقات
کرنے آ جائے یا آپ سے فون پہ رابطہ کر لے تو یہ بات ضروری نہیں
ہے کہ آپ اس کے اُس ذہنی دباؤ میں اضافے کا ہی باعث بنیں۔
ہو سکتا ہے اس نے ذہنی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے ملاقات رکھی ہو
یا فون کیا ہو۔
براہِ کرم دوسروں کی تکلیف کا باعث مت بنیں۔ کسی کو
جھوٹی تسلیاں بھی مت دیں یا اپنا ذاتی مفاد اٹھانے کے لیے اس کو
جھوٹی امیدیں مت دلائیں۔ اپنی زندگی بہتر بنانے کے لئے دوسروں
کی زندگیوں کو تباہ مت کریں۔
جب کوئی خود آپ سے اپنا مسئلہ بیان نہ کرے کسی کی زندگی
کے نازک مسائل کو مت چھڑیں۔
ہر ملاقات میں ایک ہی سوال مت کریں رشتہ نہیں ہوا بچہ نہیں
ہوا نوکری نہیں ملی گھر نہیں خریدا ابھی تک؟
وغیرہ وغیرہ
آپ کو عقل استعمال کرنی چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ جو بھی
ہوگا آپ کو وہ خود بتا دیں گے بار بار پوچھنے کا مقصد؟
اگر آپ کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو سوالات کرنے سے
پہلے اپنی ذات کو خود اس جگہ پہ رکھ کے سوچیے شاید آپ
کچھ سمجھ پائیں۔
دوسروں کی مدد کریں صرف باتیں نہ کریں
آسانیاں پیدا کیجیئے
محبتیں بانٹیے
پرسکون رہیے
پرسکون رہنے دیجئے
جی آر سنز