افغانستان دریائے کابل میں جو اس وقت سیلاب چڑھا ہوا ہے اس نے دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہونا ہے۔ پختونخواہ میں جو طوفانی بارشیں اور سیلاب آیا ہے وہ پانی بھی دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہو گا۔ یہ جمع ہونے والا ریلہ ابھی کالاباغ کے مقام تک نہیں پہنچا لیکن جلد پہنچنے والا ہے۔ اس کے بعد میدانی علاقہ ہے او یہ بڑا ریلہ تب تک تباہی مچاتا رہے گا جب تک بحرہ عرب میں جا کر نہیں گر جاتا۔ کچے کا سارا علاقہ ڈوبے گا، ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ بھکر کا کچھ حصہ متاثر ہوگا، تباہی در تباہی ہو گی لیکن کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں کی گئی ہے۔
کالاباغ ڈیم ہوتا تو یہ سارا پانی سٹور ہو جانا تھا لیکن ڈیم بن گئے تو بجلی کے “کارخانے” لگا کر حکمران تگڑا کمیشن کیسے کھائیں گے، سولر پلیٹ کیسے بیچیں گے؟
یہ سب میٹھا پانی ہے۔ اربوں ڈالر مالیت کا یہ میٹھا پانی اربوں ڈالر مالیت کی تباہی مچاتا ہوا سمندر میں جا گرے گا۔ چند ماہ بعد خشک سالی ہو گی۔
ستر سال سے اسی سیلاب اور خشک سالی کے درمیان جی رہے ہیں۔ ایک کالاباغ ڈیم اربوں ڈالر کا میٹھا پانی بچاۓ گا، اربوں ڈالر کا نقصان بچائے گا اور اربوں ڈالر کی سستی بجلی الگ سے فراہم کرے گا۔ جو قومیں فیصلے نہیں کرتیں ان کی قسمت میں بھوک، سیلاب اور خشک سالیاں ہوتی ہیں خوشحالیاں نہیں۔