Murder for money | kill innocent man

GR SONS


 ڈاکٹر ------ صاحب بتاتے ہیں کہ ۔۔۔۔

چند دن پہلے میرے پاس ایک نوجوان کو لایا گیا تھا جسے گولی لگی تھی خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا مگر نوجوان کے حواس ابھی قائم تھے۔۔۔۔



 میری یونیفارم دیکھ کر اس نے مجھ سے التجا کی کہ ڈاکٹر صاحب میری موت کی خبر میرے گھر والوں کو نہ دیجئے گا اور ساتھ ہی میرے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے تھے ۔۔


مجھے حیرت تھی کہ میں اسے بچانے کے لیے پر امید تھا اور وہ شخص یقینی موت کی بات کر رہا تھا۔۔۔

 خیر میں نے اسے تسلی دی اور آپریشن تھیٹر پہنچے جہاں اسے بیہوش کرنے کے لئے انجیکشن دیا گیا اور ساتھ ہی میں اس کی روداد بھی سنتا رہا۔۔۔

 کہانی سناتے سناتے لڑکا بیہوش ہو گیا اور اسی بیہوشی کے دوران اس کی موت ہو گئی مگر اس کے موت مجھے جھنجوڑ کر رکھ گئی۔ شاید پڑھنے والوں کو بھی جھنجوڑ دے اس لئے واقعہ بتا رہا ہوں کہ ۔۔۔۔۔


جب لڑکے نے التجا کی کہ میری موت کی خبر میرے گھر والوں کو نہ دیجئے گا بلکہ لاش ایدھی سینٹر یا چھیپا کے حوالے کر دیجئیے گا تو میں نے اس سے پوچھا ایسی کیا وجہ ہے ؟

اس نے بتایا کہ میرے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں میری تین چھوٹی بہنیں ہیں جنہوں نے پچھلے دو دن سے کچھ نہیں کھایا مجھے آج دو دن بعد مزدوری ملی اور میں دیہاڑی لگا کر آ رہا تھا کہ راستے میں ڈاکوؤں نے مجھے لوٹنے کی کوشش کی۔

 میرے پاس کل دولت وہ آج کی دیہاڑی لگ جانے والی مزدوری اور یہ ایک پرانا سا موبائل تھا اگر صرف میری بات ہوتی تو میں شاید یہ تیرہ سو روپے ڈاکوؤں کو دے دیتا مگر مجھے پتہ تھا گھر میں دو دن سے بھوکی بیٹھی میری بہنیں روٹی کے انتظار میں میری راہ دیکھ رہی ہیں یہ پیسے ڈاکو لے گئے تو میری بہنیں کیا کھائیں گی ؟

جب کہ یہ لوگ خوف خدا سے عاری ہیں یہ تو کسی اور کو بھی لوٹ لیں گے لہذا میں نے مزاحمت شروع کر دی اور ان ظالموں نے محض اس تیرہ سو روپے کی خاطر مجھے گولی مار دی ۔۔

ڈاکٹر صاحب مجھے پتہ ہے میں مر جاؤں گا مگر مجھے فکر ہے کہ میرے گھر والے جن کے پاس روٹی تک کے پیسے نہیں ہیں وہ میرے لئے کفن کے پیسے کہاں سے لائیں گے۔ قبر کے پیسے کہاں سے لائیں گے لہذا میرے گھر والوں کو میری موت کی خبر نہ دی جائے۔۔۔۔

 ساتھ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے اور موبائل میرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے گھر کا ایڈریس بتایا اور کہا یہ پیسے گھر پہنچا دینا اور یہ موبائل ںیچ کر میری چھوٹی بہن کو نئی جوتی خرید دینا۔ بہت دنوں سے ضد کر رہی تھی۔۔۔۔

 اگر میری والدہ کا حوصلہ بلند ہوا تو انہیں تسلی دیتے ہوئے میری موت کی خبر دے دینا ورنہ کہہ دینا کہ آپ کا بیٹا کسی دوسرے شہر مزدوری کے لئے چلا گیا ہے۔۔

 اس کے ساتھ ہی وہ نوجوان حالت غنودگی میں چلا گیا اور وہیں سے موت کی آغوش میں جا پہنچا ۔۔۔۔ 


مگر میں تب سے سوچ رہا کہ اب تک ہم پر پتھروں کی بارش کیوں نہیں ہوئی سیلاب ہم کو کیوں بہا نہیں لے گیا ؟

سرکش جنّات کی طرح ہمارا قلع قمع کرنے کے لئے فرشتے کیوں نہیں اتر رہے ؟

ہم لوگ اب تک قہر الٰہی سے محفوظ کیوں ہیں ؟


جبکہ مسلمانوں والے اعمال ہماری اکثریت کب کی چھوڑ چکی ہے بد دیانت حکمران بد دیانت عوام، لٹیرے حکمران لٹیری عوام، قاتل حکمران قاتل عوام ۔۔۔دوسری طرف اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان و مال عزت کو حرام قرار دیا ہے۔۔۔۔۔

 ان ہی سوالات کو سوچتے ہوئے میں نے ہر چیز اس نوجوان کے گھر والوں تک پہنچائی اپنی جیب سے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا ان لوگوں کے لئے مناسب روزگار بنا کر بہت جلد یہ ملک چھوڑ کر بمعہ فیملی کسی اور ملک منتقل ہو رہا ہوں۔۔۔

 کیونکہ جتنی شدت سے اہلیان پاکستان قہر خدا کو آواز دے رہے ہیں مجھے نہیں لگتا ان لوگوں کو توبہ کی مہلت بھی مل پائے گی ۔۔۔۔