Judge and killer

GR SONS


ایک جج صاحبہ ایک مجرم کو سزا سنانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ !!!!! 

میں اندرون سندھ ایک پسماندہ سی تحصیل میں فرائض سر انجام دے رہی تھی کہ میرے سامنے ایک مجرم کو پیش کیا گیا جس نے دوران ڈکیتی نہ صرف خاتون سے جنسی زیادتی کی تھی بلکہ اسے ہوس مٹانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا ۔۔۔

شواہد کے مطابق خاتون کے گلے میں پھندہ ڈال کر اسے چھت میں لگی ہک سے لٹکا دیا گیا تھا مگر خاتون کے ہاتھ اور پاؤں کھلے تھے۔ حیرت انگیز طور پر گردن میں لگے پھندے کو خاتون نے صرف ایک بار پکڑ کر چھڑانے کی کوشش کی تھی اور مجھے یہ بات بہت عجیب لگی تھی کیونکہ جب دم گھٹنے سے موت ہوتی ہے تو انسان ایڑیاں رگڑتا ہے گلے لگے پھندے کو نکالنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے مگر اس خاتون نے ایسا بالکل بھی نہیں کیا تھا۔۔

 چونکہ رسی کے بنے پھندے پر خاتون کی انگلیوں کے نشانات موجود تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ خاتون کو زندہ حالت میں پھندے سے لٹکایا گیا تھا میں نے یہ ہی سوال تفتیشی افسر سے بھی کیا تھا کہ خاتون نے خود کو پھندے سے آزاد کرانے کے لئے ہر ممکن کوشش کیوں نہیں کی ؟

میرے سوال کے جواب میں تفتیشی افسر نے جواب دیا تھا کہ نہ تو ہمارا خیال اس طرف گیا ہے اور نہ ہی ہم نے یہ سوال مجرم سے پوچھا ہے اگر آپ حکم دیں تو دوبارہ تفتیش کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ 


میں نے دوبارہ تفتیش سے منع کرتے ہوئے روبرو کھڑے مجرم کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ اس خاتون کے ساتھ اس قدر بربریت برتنے کی وجہ کیا تھی ؟ 

اور دوسرا تم نے جب خاتون کو چھت سے لٹکایا تو اس کے ہاتھ بے اختیار پھندے سے آزاد ہونے کی کوشش کے لئے پھندے کو بار بار جگہ جگہ لگنے چاہئے تھے کیوں نہیں لگے ؟

میری بات سن کر سامنے کھڑا مجرم مکروہ ہنسی ہنسا اور بولا کہ خاتون کا  پھندے کو ہاتھ نہ لگانے کی وجہ اس کی ممتا تھی اور قتل کرنے کی وجہ کوئی بھی نہیں تھی۔ مجھے میرے سائیں ( وڈیرے ) نے حکم دیا جا اس کے ساتھ عیاشی کر مگر مطلب پورا ہو جانے پر ثبوت مٹا دینا اور اگر میرے کام کی کوئی چیز ملی تو لا کر مجھے دے دینا۔

 در اصل خاتون اور اس کا شوہر پڑھے لکھے تھے اور وڈیرے کی دھونس نہیں مانتے تھے اسی لئے وڈیرے نے میرے ذریعے ان کو سزا دینے کا فیصلہ کر لیا اور وڈیرے کے حکم پر میں نے سزا دے دی ۔۔۔۔ 


میں دن دیہاڑے شوہر کی غیر موجودگی میں ان کے گھر گھسا خاتون کے گھر سے سارا قیمتی سامان اور زیور سمیٹا بعد میں خاتون سے زیادتی کی اور ثبوت مٹانے کی خاطر خاتون  کو پھندے سے لٹکا دیا تا کہ لوگوں کو لگے اس نے خود کشی کر لی ہے ۔۔۔

 اور رہی بات خاتون کا پھندے کی طرف ہاتھ نہ لے جانا تو اس کی وجہ ممتا تھی کیونکہ خاتون نے ہاتھوں کی مدد سے پھندا پکڑ لیا تو مجھے لگا اسے مرتے مرتے وقت لگ جائے گا میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا لہذا میں نے اس کی ڈیڑھ سال کی بیٹی کو زمین پر گرا کر اس کے سینے پر پاؤں رکھ کر دبانا شروع کر دیا۔ بیٹی کو دیکھ کر خاتون اپنی موت کو بھول کر بیٹی کی طرف لپکنے لگی اور چند ہی جھٹکوں سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ گردن ٹوٹتے ہی وہ مر گئی ۔۔

میں نے اس کی بچی کو وہیں چھوڑا زیور اور نقدی اٹھایا اور باہر نکل آیا۔ میں نے اپنی ضرورت کی چیز حاصل کر لی تھی اور سائیں کی ضرورت کی چیز سائیں کو دے دی ۔۔ سائیں کا وعدہ تھا پولیس اور عدالت کو وہ سنبھال لے گا اس لئے میں مطمئن ہوں ۔۔۔۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ڈکیتی ، زیادتی اور قتل باوجود بھی وہ شخص میرے سامنے یوں کھڑا تھا جیسے محض کوئی ٹریفک سگنل توڑ کر آیا ہو اس کی بات ختم ہوئی تو میرے ذہن میں بیسیوں سوال اٹھے ۔۔۔۔ 


پولیس تفتیش میں کہیں بھی ڈکیتی کی چیزیں وڈیرے کو دینے کا ذکر نہیں تھا نہ ہی کہیں خاتون کی بیٹی پر کئے گئے تشدد کا ذکر تھا نہ ڈکیتی کی وارادت میں لوٹا گیا مال مسروقہ پورا لکھا گیا تھا جس سے صاف ظاہر تھا کہ پولیس والوں کو خدا سے زیادہ وڈیرے کا خوف تھا۔۔۔

 میں نے مجرم کو تین بار سزائے موت سنائی تھی جس پر بعد ازاں مجھے خود بھی قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر میں نے سزا کے اضافی نوٹ میں لکھا تھا۔۔

ایک بار سزائے موت زیادتی کے جرم میں اور دوسری بار سزائے موت قتل کے جرم میں جب کہ تیسری بار سزائے موت اس ڈیڑھ سال کی معصوم یتیم ننھی کلی پر ظلم کے جرم میں ۔۔۔

اور ساتھ ہی تفتیشی افسر کو میں نے سائیں کو شامل تفتیش کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ گو کہ سائیں کبھی قصوروار ثابت نہیں ہو سکا مجھے معلوم تھا وہ کبھی مجرم ثابت نہیں ہو گا مگر میں نے جہاں تک ممکن تھا انصاف کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ 


میرے فیصلے کی وجہ سے مجھے بھی جواب دہ ہونا پڑا تھا اور متعلقہ فورم پر مجھ سے اتنی سخت سزا کی وجہ پوچھی گئی تو سامنے بیٹھی خاتون ممبر کو الگ کر کے میں نے اپنے جسم پر جلنے اور زخموں کے نشانات دکھاتے ہوئے کہا کہ میں نے سوتیلی ماں کے پاس پرورش پائی اور جب مجھے خیال آیا کہ وہ ڈیڑھ سال کی بچی بھی اب سوتیلی ماں کے پاس پرورش پائے گی تو مجھے اس ظالم شخص کے اس جرم کی سزا موت سے کم نظر نہیں آئی ۔۔۔ 

میری تکلیف کو سمجھتے ہوئے فورم کے تمام ممبران نے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے نرمی سے قوانین کو مد نظر رکھ کر چلنے کا کہا اور میرے فیصلے کو برقرار رکھنے کا حکم بھی دے دیا ۔۔

جب میرا کیس ختم ہوا تو اس فورم کے تمام مرد ممبران نے میرے سر پر دست شفقت رکھا اور میں رونے لگی تو انہوں نے وجہ پوچھی۔ میں نے روتے ہوئے بتایا کہ جب سے سوتیلی ماں گھر میں آئی تھی اس دن کے بعد پہلی بار کسی نے اتنی شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا ہے خاتون ممبر نے مجھے گلے لگا کر بوسہ شفقت دیا اور ڈھیروں دعائیں دے کر رخصت کر دیا ۔۔۔

میری وہاں سے پوسٹنگ کر کے مجھے کراچی شہر میں بھیج دیا گیا کیونکہ میں وڈیرے کے غضب کا شکار بن سکتی تھی اور کوئی مجھے بچا نہ پاتا,  بقیہ ماندہ ملازمت میں نے کراچی شہر میں ہی گزاری ۔۔۔