Thief poverty and Unemployment

GR SONS

  ایک مشہور ڈاکو کچھ نیک لوگوں کی صحبت اور تبلیغ کی وجہ سے ڈاکے 

مارنے سے تائب ہو گیا


 

مگر پھر وقت کچھ ایسا آیا کہ بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے گھر میں نوبت فاقوں تک آن پہنچی 

تو وہ ایک دن ایک بڑے ولی کے مزار پر گیا اور دعا مانگنے کے بعد  دن دیہاڑے وھاں چھت پر لٹکتا انتہائی قیمتی فانوس اتار لایا ۔ 

مزار پر بیٹھے مجاور اسے جانتے تھے کہ بہت بہادر لڑاکا اور جنگجو ھے، سو اسے کچھ کہنے یا مزاحمت کرنے کی جرأت نہ کرسکے 

ڈاکو نے وہ فانوس بیچ دیا ۔


مزار کے گدّی نشین اور مجاوروں نے ڈکیتی کا پرچہ کروا دیا اور کیس عدالت میں چلا گیا، جج صاحب نے ڈاکو کو عدالت میں طلب کیا (یہ واقعہ حیدر آباد سندھ کے ایک مشہور مزار کا ھے) 

جج صاحب نے ڈاکو سے پوچھا 

تم نے مزار سے فانوس اتارا ہے؟ 

ڈاکو نے کہا : جی اتارا ہے؟

پوچھا : کیوں اتارا ہے؟ 

جواب دیا کہ گھر میں نوبت فاقوں تک آ گئی تھی. میں صاحب مزار (قبر میں مدفون) کے پاس حاضر ھوا کہ میری حاجت روائی فرمائیں. 

صاحب مزار نے قبر کے اندر سے فرمایا  "یہ فانوس تیرا ہوا. بیچ کر ضرورت پوری کر لے"۔ 

سو میں نے فانوس اتار کر بیچ دیا اور اپنی ضرورت پوری کر لی۔ 

جج صاحب نے سر جھکا لیا اور کچھ دیر تؤقف کے بعد گدّی نشین اور مجاوروں سے مخاطب ہوئے کہ 


*یا تو اپنا عقیدہ بدل لو اور لکھ کر دے دو کہ 

"ولی قبروں میں نہ سنتے ہیں اور نہ حاجت روائی کرتے ہیں" تو کیس آگے چلاتے ہیں !

 یا پھر ہم آپ کے عقیدے کے مطابق مان لیتے ہیں کہ ڈاکو ٹھیک کہتا ہے*  


مجاوروں نے کچھ دیر صلاح مشورے کے بعد اپنا کیس واپس لے لیا۔