قرض 3 لاکھ ریال کا | A loan of 3 lakh riyals

GR SONS



 سعودي عرب کے شہر بریدہ میں پیش آنے والا ایک سچا واقع ایک سعودی تاجر کا بیان ہے کہ میں اور میرا دوست سعود شہربریدہ میں تجارت کرتے تھے  ایک دن میں جمعہ کی نماز کے لیے بریدہ کی مسجد الکبیر میں گیا نماز جمعہ کے بعد جنازہ کا اعلان ہوا نماز جنازہ ادا کی گئی

 لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ کس کا ہے پتہ چلا کہ یہ جنازہ میرے ہی دوست سعود کا ہے جو گزشتہ رات دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا تھا مجھے سن کر انتہائی صدمہ پہنچا یہ 1415ھ یعنی کوئی 22 برس پہلے کی بات ہے اس وقت ابھی موبائل فون عام نہیں ہوا تھا


 چند مہینے گزرنے کے بعد وہاں کے ایک دکاندار نے مجھ سے بات کی کہ مرحوم سعود کے ذمے میرے 3لاکھ ریال ہیں توآپ میرے ساتھ چلیں ہم جار کر اس کے بیٹوں سے بات کریں اور  یہ بات پہلے سے میرے علم میں تھی کہ سعود کے ذمہ یہ قرض ھے چنانچہ ہم مرحوم کےبیٹوں سے جار کر  ملے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے رقم لوٹانے سے صاف انکار کردیا اورکہا کہ ہمارے باپ نے تو صرف 6لاکھ ریال چھوڑا ہے اگر 3لاکھ ہم آپ کو دیتے ہیں تو پھر ہمارے پاس  کیا بچے گا 


 اس دور میں بہت سا لیں دین باہم اعتمادی بھی ہوتا تھا   چنانچہ ہم واپس آگئے- یوں حیدر وقت گزرتا گیا لیکن ہر وقت مجھے سعود کی یاد ستاتی رہی یہی سوچتا رہا کہ ناجانے قرض نہیں چکانے کی وجہ سے قبر میں اس کے ساتھ کیا  بیت رہی ہوگی


 ایک دن میں نے اپنے پیارے  دوست کا قرض اتارنے کا عزم کرلیا اس ارادے کے بعد پھر مجھے دو دن تک نیند نہیں آئی جب بھی میں سونے کے لئے آنکھیں بند کرتا توسعود کا مسکراتا چہرا میرے سامنے آ جاتا گویا وہ میری مدد کا منتظر ہوں تیسرے دن میں نے اپنے عزم کو عملی جامہ پہناتے ہوے اپنی دکان سامان سمیت فروخت کر دی اور دیگر جمع پونجی اکٹھی کی تو میرے پاس4لاکھ پچاس ہزار ریال  جمع ہو گئے توفورا 3لاکھ ریال سے دوست کا قرض اداکیا جس سےمجھے دلی سکون ملا


 اس ادائیگی کے 2 ہفتے بعد وہی شخص جس کو میں نے 3لاکھ ادا کئے تھے میرے پاس آیا  اور کہنے لگا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے اپناسب کچھ  بیچ کر یہ پیمنٹ کی ہے لہذا میں 1لاکھ ریال سے دستبردار ہوتا ہوں، یہ کہ کر اس نے 1لاکھ ریال مجھے واپس کر دیا اور مارکیٹ میں دوسرے  تاجروں کے ساتھ بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا کہ مخلص دوست نے کمال کی مثال قائم کر دی ہے 


چند دن گزرے کہ ایک تاجر کا فون آیا اسنے پیشکش کی کہ میرے پاس دو دکانوں پر مشتمل ایک سٹور ہے جو میں آپ کو بلا معاوضہ دینا چاہتا ہوں میں نے اس کی پیشکش کو قبول کیا مزدور لگا کر دکانوں کی صفائی کی اسی دوران سامان سے لدا ہوا  ایک بڑا ٹرک دکانوں کے سامنے آ کر رکا  جس میں سے ایک نوجوان نیچے اترا سلام کے بعد کہنے لگا کہ میں فلاں تاجر کا بیٹا ہوں  یہ سامان  میرے ابا جان نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سامان بیچ کر اسکی  نصف قیمت آپ ہمیں لوٹا دینا اور باقی آدھا مال ھماری طرف سے گفٹ ہے اور آئندہ جتنے مال کی ضرورت ہو ہم سے ادھار لے کر فروخت کر کے پیمنٹ کر دیا کریں  لوگ جنہیں میں جانتا نہیں  تھا چاروں طرف سے میرے ساتھ تعاون کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور تھوڑے ہی عرصے میں میرا  بزنس پہلے سے دگنا ہوگیا


  المختصر  1436ھ کے رمضان المبارک میں میں نے 3ملین ریال  اپنے مال کی زکاةادا کی ہے 


  يه كوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے 

سید کائنات رحمۃ اللعالمین کا فرمان گرامی کس قدر سچا ھے  کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رھتا ھے اللہ تعالٰی بھی اس کی مدد کرتا رھتا ھے