یورپی یونین نے پاکستان ہائی رسک ممالک کی فہرست سے نکال لیا ہے، جس کی وجہ سے اقتصادی مشکلات کے شکار اس ملک کی معیشت میں بہتر ی کی امید پیدا ہو گئی ہے۔
رآمدت میں بہتری کے امکان
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت شدید گراوٹ کا شکار ہے اور شرح نمو گذشتہ کچھ برسوں میں بہت متاثر ہوئی ہے۔ ملک پر 115 بلین ڈالرز سے زائد کا اندرونی اور بیرونی قرضہ ہے جب کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو بیل آؤٹ پیکیج کی قسط بھی نہیں مل رہی۔ تاہم پاکستانی صنعت کاروں کا خیال ہے کہ اس فیصلے کے بعد معیشت میں بہتری کے کچھ آثار پیدا ہوجائیں گے۔ فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر ریحان نسیم کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں بہت بہتری آ سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ''پاکستان کے پاس پہلے ہی جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس ہے اور امید ہے کہ یورپی کمیشن کے اس فیصلے کے بعد ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا اور ممکنہ طور پر ملک کو ایک سے دو بلین ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال اور
دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے بڑی کمپنیوں کے عہدے داروں نے اپنے دوروں کو محدود کردیا تھا اور زیادہ تر کاروباری اجلاس دبئی میں ہوا کرتے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس فیصلے کے بعد وہ یورپی کمپنیاں جو پاکستان سے ٹیکسٹائل اور دوسری مصنوعات درآمد کرتی ہیں ان کے عہدے دار پاکستان میں فیکٹریوں کا دورہ کریں گے۔
معیشت پر دریرپا اثرات
کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر اور معروف کاروباری شخصیت احمد چنائے کا کہنا ہے اس فیصلے کے پاکستانی معیشت پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ انہوں نے بتایا، ''جو کمپنیاں پاکستان کے ساتھ تجارت کرتی تھی اس فیصلے سے پہلے ان کو انشورنس پریمیم زیادہ بھرنا پڑتا تھا اب ان کا پریمیم کم ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستانی ایکسپورٹرز کو یورپی یونین کے ممالک میں اضافی ریگولیشنز کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘
ٹیکسٹائل، گارمنٹس، سرجیکل گوڈز اور چاول سمیت کئی ایسی اشیا ہیں جو مختلف یورپی ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔ احمد چنائے کا کہنا ہے کہ ان اشیاء کی برآمدات میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
وزارت تجارت سے وابستہ ایک سابق عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''اس فیصلے کا اثر برطانیہ پر بھی ہوگا کیونکہ اس فیصلے کے بعد امکان ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر دسمبر کے بعد جی ایس پی پلس کا درجہ مل جائے گا، جس کے بعد برطانیہ سے بھی ایک اچھے تجارتی معاہدہ ہو سکتا ہے، جو معیشت کے لیے بہت مثبت ہوگا۔‘‘