ڈنکی نہیں ویزا || travel through visa

GR SONS



 لوگ اس لیے ڈنکی نہیں لگاتے کہ وہ غریب ہیں ۔بیس لاکھ روپے ادا کرنے والا مزدور تو نہیں ہوسکتا ۔ڈنکی لگانے والوں کی اکثریت اصل میں یورپ گئے ہوئے لوگوں کے رویے کی وجہ سے ڈنکی لگاتی ہے ۔ڈنکی لگانے والوں میں اسی فی صد کا تعلق کھاریاں،منڈی بہاؤ الدین ،گجرات ،گوجرانوالہ یا اس کے ملحقہ علاقوں سے ہے 


یورپ پلٹ اور یورپ کے رہائشی ان مخصوص علاقوں میں اپنی دولت کی نمود نمائش کرتے ہیں ۔شادیوں میں ہیلی کاپٹر کرایے پر لیں گے ،بارات میں پاؤنڈ یورو ،ڈالر اڑایں گے 

سمارٹ فون پھینکیں گے ، سلے ،ان  سلے کپڑے پھینکیں گے،جدید اسلحے سے فائرنگ کریں گے،مقامی ایم پی اے ،ایم این کو بلائیں گے۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔شادی میں بڑے شہروں سے سنگرز کو بلائیں گے ۔یوٹیوبرز جن میں اردو پوائنٹ اور ڈیلی پاکستان سرخیل ہیں وہ ان پر ویڈیوز بنائیں گے یوں ایک ماحول بنا دیا جاتا ہے ۔یہ سب کچھ دیکھ کر ایک نوجوان پڑھنے یا پاکستان میں کام کرنے کو ترجیح ہی نہیں دیتا ۔والدین سے دو کنال زمین بکوا کر ڈنکرز کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔اور یوں پاکستان سے ایران ،ایران سے ترکی اور ترکی سے موت۔۔۔۔۔ کا سفر شروع ہوتا ہے۔اور اس سے آگے جانے والے ۔۔۔۔۔۔بہت ہی آگے  چلے جاتے ہیں ۔اور اپنے پیچھے آنسو اور پچھتاوا چھوڑ جاتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں

بال کٹوائے شیو بنوائی اور جب اجرت پوچھی تو حسب معمول حجام نے کہا کہ 

بھائی میرے لئے


اس کے لیے ڈنکی شارٹ کٹ اور آسان راستہ ہوتی ہے کیونکہ محض ایک سال پہلے ڈنکی پر پہنچنے والے اس کے گاؤ ں کے کسی فرد کے گھر جب یورو آتے ہیں کچے سے پکے مکان بنتے ہیں ۔موٹر سائیکل سے گاڑی کا سفر طے ہوتا ہے ۔تو لامحالہ یہ تحریک کسی بھی موٹیویشنل سپیکر کی تقریر سے زیادہ کام کرتی ہے لوگوں کا جب تک کومپلیکس ختم میں ہوتا ،آپ ڈنکی کبھی نہیں روک سکتے آپ ساری دنیا کا ڈیٹا نکال لیں ڈنکی لگانے والے ممالک کی تعداد شاید دس سے زیادہ نہیں بنتی جن میں انڈیا ،بنگلہ دیش اور پاکستان سرفہرست ہے ۔یہ ہم خود ہیں جو ان نوجوانوں کو ڈنکی لگانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ہماری طرف سے طرف رہنمائ و تحریک کی بجائے طعنے ہیں جو ہم ان نوجوانوں کو دیتے ہیں ۔اس  یونان والے واقعے سے ڈنکی میں اضافہ ہو گا کیونکہ اب ایجنٹس نے نئے ملک اور علاقے دریافت کر لیے ہیں جہاں سے ڈنکی لگائ جا سکتی ہے ۔میں ان ممالک اور مخصو ص ممالک  کا تزکرہ اس لیے نہیں کر رہا کہ اسے پڑھ کر انہیں مزید تحریک اور نیا راستہ نہ ملے۔


یہ بھی پڑھیں

 ڈالر فی کس ادا کرنے والے اینگرو پاکستان کے چئیرمین شہزادہ داود اور انکے بیٹے


دولت کا اظہار بری بات نہیں ہے۔لیکن یہ طریقہ کار اور اس کی میڈیا میں تشہیر بہت قابل اعتراض ہے۔ یو ٹیوبرز اپنے ویوز لینے کے لیے ہر ایسی شادی اور جگہ پر پہنچ جاتے ہیں اور گھر والے مزے لے لے کر فضول خرچی کے قصے سنائیں گے 


مہنگی شادیاں دنیا میں ہر جگہ ہوتی ہیں ۔لیکن ان کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے ۔آس پاس رہنے والوں کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ہمارے ہاں ایک سالگرہ کے فنکشن کا پورے شہر کو پتہ چلتا ہے ۔اور شور شرابے اور غلط پارکنگ کی وجہ سے پورا محلہ پریشان رہتا ہے۔


آپ ان مخصوص علاقوں میں اس نمود و نمائش پر پابندی لگائیں ۔بائیو فینس لگائیں ،ٹیکنکل ادارے کھولیں ،نوجوانوں کی کو نسلنگ کریں۔ اس طرح کی فضول شادیوں  کی کوریج پر پابندی لگائیں ۔آپ اگر ان علاقوں کے رہائشی ہیں تو ایسی شادیوں کا بایکاٹ کریں۔


اس ڈنکی کا آسان اور بہتر حل موجود ہے۔اس پر عمل پیرا ہوں۔

انہی پیسوں سے گلف میں سکل سکھ کر آئیں  ،اور ایک سال کے بعد اسی یورپ میں جہاز پر بیٹھ کر جائیں ،کشتی یا بحری جہاز میں نہیں۔۔۔۔۔۔


ماؤں کو مرتے دم تک روتا نہ چھوڑیں ،بے چاری  رو رو کر آنسو خشک کر لیتی ہیں ۔


ڈنکی نہیں ۔۔۔۔۔ویزہ..!