والدین اور اولاد میں فرق || Difference between parents and children

GR SONS

والدین اور اولاد میں فرق




ایک تحریر اولاد کے نام

 میں اور میری بیوی سنار کی دوکان پر گئے سونے کی انگوٹھی خریدنے کیلئے ۔کچھ انگوٹھیاں دیکھنے کے بعد میری بیوی کو ایک انگوٹھی پسند آگئی ۔قیمت ادا کر کے جیسے ھی میں باہر نکلنے کیلئے مڑا تو ایک بارعب شخص سے ملاقات ھوئی جو کہ مجھے جانتے تھے لیکن میں انکو بھول چکاتھا بس اتنا یاد تھا کہ ماضی میں کبھی ان سے ملاقات ھوئی تھی ۔۔

یہ صاحب بڑی گرم جوشی سے میرے گلے ملے اور سوالیہ نظروں سے پوچھنے لگے "بیٹا لگتا ھے پہچاننے کی کوشش کر رھے ھیں آپ " 

میں نے کہا معزرت کیساتھ آپ کا چہرہ جانا پہچانا لگ رہا ھے لیکن یاد نہی آرہا کہ آپ سے کب ملاقات ھوئی تھی ۔۔

وہ تھوڑا سا مسکراے اور کہنے لگے میرا نام اقبال ھے ویسے لوگ مجھے بڑا بھائی کہتے ھیں ۔آج سے چند سال قبل آپ اپنی فیملی کیساتھ ھمارے گھر آے تھے گلبرگ میں ھمارا گھر ھے شاید آپ کو یاد آگیا ھو ۔۔

انکی بات سن کر میرا تو سر ھی چکڑا گیا ۔اور میرا رویہ بالکل مودبانہ ھو گیا اور میں بے اختیار بول پڑا سب یاد آگیا بڑے بھائی سب یاد آگیا ۔۔۔

میں نے سوال کیا آپ اکیلے ھی ھیں یا آنٹی بھی آئیں ھے ۔


یہ بھی پڑھیں

اب چلتے ہیں آفیسرز کالونی اینگرو رحیم یار خان۔ بجلی فری تھی اور بیگمات تین چار دن بھی گھر سے جاتی تھیں تو اے سی آن کرکے جاتی تھیں تاکہ واپسی پر گھر ٹھنڈا  ملے


بڑے بھائی نے جواب دیا جی آنٹی بھی آئیں ھیں اور دوسرے بھائی بھی آئیں ھیں وہ بیٹھے ھیں آپ ان سے مل سکتے ھیں ۔۔۔

ایک سائید پر دیکھا تو آنٹی برقعہ پہنے بیٹھی تھی اور ساتھ میں ھی دوسرے بھائی بھی کھڑے چہرے پر مسکراہٹ سجاے میری طرف دیکھ رھے تھے ۔۔

میں نے اپنی بیگم کو کہا کہ انٹی کو سلام کرو اور بعد میں انکا تعارف کرواتا ھوں ۔۔

میری بیگم گئی آنٹی کو سلام کیا آنٹی نے بہت ھی اچھے طریقے سے میری بیوی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر بہت ھی پیارے انداز میں میری بیوی کو دعائیں دیں ۔


یہ بھی پڑھیں

کسان نے گدھے کو ہانک کر کام پر لے جانا چاہا تو نئی افتاد آن پڑی کہ گدھا اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نا ہوا۔ کھینچنے، زور لگانے اور ڈنڈے برسانے سے بھی کام 


میں نے آنٹی کو بتلایا کہ یہ میری بیوی ھے اور یہ میرا 3سال کا بیٹا ھے ۔آنٹی بہت خوش ھوئیں اور اپنے بیٹے کیطرف آنکھوں ھی آنکھوں میں اشارہ کیا جس نے میری بیٹے کی جیب میں 1000 کا نوٹ ڈال دیا ۔میں نے بہت اسرار کیا کہ یہ غلط ھے لیکن آنٹی نہ مانیں ۔

کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں آنٹی سے آنے کا مقصد پوچھا تو آنٹی کہنے لگیں کہ اللہ نے میری بیٹی کو بیٹے کی نعمت سے نوازا ھے اسلئے بیٹی کیلئے اور انکے اہل خانہ کیلئے کچھ تحائف خریدنے آئیں ھیں ۔۔

میں نے پوچھا آنٹی کونسی بیٹی آپکی تو تمام بیٹیاں شادی شدہ تھیں صرف ایک۔کنواری تھی جسکے رشتہ کیلئے ھم لوگ آے تھے اور آپ لوگوں نے کہا تھا کہ ابھی 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہی ھے ۔۔حالانکہ مجھے حیرانگی ھوئی تھی کہ گھر پر رشتے کیلئے بلوا کر پھر کہہ دینا کہ 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہی کتنی غلط بات ھے ۔۔


آنٹی کو جیسے ایک جھٹکا لگا ۔۔لیکن وہ ایک سمجھدار خاتون تھیں فورا ھی سمجھ گئیں کہ بات کچھ اور ھے پوچھنے لگی کہ یہ بات آپکو کس نے کہی تھیں

 میں نے کہا والد صاحب نے کہا تھا ۔۔تو وہ کہنے لگی نہی ۔۔بات دراصل کچھ اور تھی لیکن آپ کے والد صاحب نے آپ کا پردہ رکھا تھا ۔۔

میرے اندر ایک تجسس پیدا ھو گیا کہ میرے والد صاحب ھم سے کیسے غلط بیانی کر سکتے ھیں اور میرے والد صاحب نے کبھی بھی جھوٹ نہی بولا تھا ۔۔

آنٹی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ مجھے میرے بیٹے کیساتھ اکیلا چھوڑ دیں اور میں نے بھی اپنی بیگم کو کہا کہ تم تھوڑا سا وقت مجھے دو بچے کو کچھ کھلاو پلاو۔۔

یہ بھی پڑھیں


مسکرا کر کہنے لگی "بیٹا تم سلمان صدیقی ہی ہو ناں! ؟ میں نے کہا "اماں آپ اندر تو آ جائیں بیٹھ کر اطمینان سے بات کرتے ہیں آپ بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہیں آپ کی سانسیں


آنٹی کہنے لگی بیٹا جس دن تم اور تمہارے اہل خانہ ھمارے گھر ھماری بیٹی کا رشتہ لینے آے تھے میں نے اسی دن تمھارے رشتہ سے انکار کر دیا تھا جو کہ شاید تمھارے والدین نے تمہیں نہی بتلایا ۔۔۔

تم ایک پڑھے لکھے اور معاشرے میں ایک کامیاب شخص ثابت ھو سکتے ھو مجھے پہلے ھی علم تھا ۔۔

اور مجھے مکمل یقین تھا کہ میری بیٹی کو بھی تم خوش رکھو گے ۔۔

لیکن نئے لوگوں سے رشتہ جوڑنے کیلئے صرف لڑکے کو ھی نہی دیکھا جاتا بلکہ۔اسکے مکمل خاندان کو دیکھا جاتا ھے ۔کیونکہ ھم نے مستقبل میں آپس میں میل جول رکھنا ھوتا ھے اسلئے لڑکے یا لڑکی کے گھرانے والوں کو دیکھ کر مستبقل کا تعین کیا جاتا ھے کہ یہ گھرانہ مستقبل میں کتنا کامیاب رشتہ نبھا سکتا ھے کیونکہ۔زندگی میں اتار چڑھاو آتے رھتے ھیں اور ان حالات میں ھمکو کسی اپنے کی ضرورت ھوتی ھے اسلئے ھم کسی ایسے سے رشتہ نہی جوڑتے جو خوشیوں میں ھمارے ساتھ ھو لیکن حالات کے خراب ھوتے ھی وہ ھم سے جدا ھو جاے ۔۔

اسلئے میں نے اس دن آپکے والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو صاف صاف انکار کر دیا تھا ۔۔ھو سکتا ھے کہ انہوں نے آپ کو درست بات نہ بتلائی ھو۔۔


یہ بھی پڑھیں

میں نے کہا: کوئی مسلہ نہیں، میں ذاتی مال میں سے یہ دے دوں گا، وہ مطمئن ہو گئی۔۔ اور (خوشی سے) میرا ہاتھ چومنے لگی، میں نے منع کر دیا


آنٹی کی باتیں سن کر میں مزید پریشان ھو گیا اور میں نے کہا کہ آنٹی ھم بہن بھائی آپس میں ایک دوسرے پر جان چھڑکتیں ھیں خوشی اور غم میں برابر کے شریک ھوتے ھیں کبھی ایسا نہی ھوا کہ ھم میں سے کسی کو ایک۔دوسرے سے کوئی۔شکایت ھو ۔۔۔اگر آپ برا محسوس نہ کریں تو میں 100فیصد درست ھوں کہ آپکو ھمارے خاندان کو پرکھنے میں غلطی ھوئی ھے ۔۔


آنٹی نے ایک سرد آہ لی اور کہا بیٹے ابھی تم بہت چھوٹے ھو جو چیزیں میں دیکھ سکتی ھوں تم انکیطرف کبھی سوچ بھی نہی سکتے ۔۔۔

میرے استفسار پر آنٹی نے کہا کہ میرا اندازہ کبھی غلط نہی ھوتا ۔۔

چلو میں تمکو بتلاتی ھوں ۔۔۔


میں نے اپنی بیٹی کیلئے جتنے بھی رشتے دیکھے ھیں ان سے کچھ شرائط رکھی ھیں جو بھی میری بیٹی کو دیکھنے آے ۔

وہ اپنے تمام بیٹوں اور انکی بیگمات کو ساتھ لائیں ۔۔

جو سب سے اچھے کپڑے ھوں وہ زیب تن کر کے آئیں ۔

گھر کی عورتیں اپنے مکمل زیورات سے سج کر آئیں ۔

اگر گھر میں ھر فرد کی اپنی اپنی گاڑی ھے تو وہ اپنی اپنی گاڑی میں آئیں ۔۔۔


یہ بھی پڑھیں

استاد نے ذرا سا توقف کیا، پھر اپنی جگہ سے اُٹھے

اور سارے شاگردوں میں کچھ پیسے بانٹے

انہوں نے پہلے لڑکے کو سو روپے

دوسرے کو پچھتر


یہ شرائط بہت عجیب تھیں ۔۔لیکن بعض لوگوں نے اسکا یہ۔مطلب لیا کہ شاید ھم لڑکے والوں کی مالی حالت دیکھنا چاھتے ھیں ۔۔لیکن ایسی بات نہی ھے ۔۔۔


اب جب آپ کے اہل خانہ ھمارے گھر تشریف لاے تھے تو میں نے سب سے پہلے تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیاں دیکھیں جو کہ قدر مہنگی تھی جبکہ تمھارے والد صاحب کی گاڑی کی مالیت اتنی نہی تھی جتنی تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیوں کی قیمت تھی ۔۔

اسیطرح پھر میں نے تمھارے والد صاحب کے کپڑوں کا جائزہ لیا تو مجھے محسوس ھوا کہ تمھارے بھائیوں کے جسموں پر سجے ھوے کپڑے زیادہ مہنگے ھیں اور یہی حال تمھارے والد صاحب کے جوتوں کا تھا ۔۔

جب میں نے تمھاری ماں کے زیورات دیکھے تو انکی مقدار بہت ھی کم۔تھی جبکہ تمھاری دونوں بھابھیوں کے ہاتھ بازو اور گلے زیورات سے سجے ھوے تھے ۔۔۔

پھر میں نے جب تمھاری بھابھیوں سے پوچھا کہ گھر کا کھانا کون پکاتا ھے تو تمھاری بھابھئوں نے کہا کہ ھم سب علیحیدہ علیحیدہ پکاتے ھیں اور تمھارے والدین کا کھانا تمھاری بہن پکاتی ھے ۔۔ 

اسی طرح میں نے جب پوچھا کہ بچوں کو سکول کون چھوڑتا ھے تو مجھے پتہ چلا کہ تمھارے دونوں بھائی اپنے بچوں کو خود چھوڑتے ھیں جبکہ تمھاری بہن کو تمھارے والد صاحب کالج لے کر جاتے ھیں۔

جب میں نے یہ حالات دیکھے اور سنے تو مجھے افسوس ھوا ان بیٹوں پر جنکو پڑھانے کیلئے باپ نے اپنی ساری زندگی گنوا دی اور اس اولاد کو معاشرے کا کامیاب فرد بنایا لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد والد کا سہارا ببنے کی بجاے اپنی زندگی گزارنے پر رضامند ھو گئی ۔۔

تمھارے باپ نے تمھارے لئے بھوک افلاس بھی دیکھا ھو گا ۔

پیدل سفر بھی کیا ھو گا ۔

تمھارے منہ میں نوالہ ڈالنے کیلئے بھوک بھی برداشت کی ھو گی۔

تمہیں اچھا پہنانے کیلئے خود دو تین سال ایک ھی جوڑے میں بھی گزارے ھو نگیں ۔۔

لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد باپ کو بھول گئی اور اپنی دنیا کی رنگ رلیوں میں مگن ھو گئی ۔۔

تمھارے بھائیوں نے خود تو نئی گاڑی لے لی لیکن انکو خیال نہ آیا کہ ھمارا باپ آج بھی اسی پرانی گاڑی میں سفر کیوں کرتا ھے کیونکہ اس پر ابھی بھی تمھاری بہن کی اور تمھاری زمہ داری ھے ۔۔

اسکا بھی دل کرتا ھو گا نئے جوتے اور نئے کپڑے پہننے کو لیکن ھو سکتا ھے اسکی جیب اس چیز کی اجازت نہ دیتی ھو ۔۔لیکن تمھارے بھائیوں کی جیب تو اجازت دیتی تھی کہ اپنے باپ کیلئے اچھا لباس اچھا جوتا پہلے خریدتے اور اپنے لئے بعد میں کیونکہ یہ رویہ تمھارے باپ کا تھا جب بھی اس نے کوئی چیز خریدنا چاھی پہلے اپنی اولاد کا خیال کیا بعد میں اپنا سوچا ۔۔

اسی لئے میں نے یہ ساری باتیں اسی دن تمھارے والد سے کر دیں تھیں ۔ھمیں دنیا کی مال و دولت نہی چاھئیے ھمیں تو ایسے رشتہ۔دار چاھئیں جو اپنے سے بڑھ کر اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دیں تاکہ کل کو جب ھم نیچے گریں تو ھمکو مزید نیچے دبانے کی بجاے اوپر کو اٹھائیں تاکہ کل کو جب وہ نیچے گریں تو ھم انکو بھی سہارا دیں سکیں ۔۔۔

مال و دولت اعلی عہدہ یا مرتبہ تو ھمیشہ نہی رھتا ۔۔

ھمیشہ جو ساتھ چلتے ھیں وہ سچے رشتے چلتے ھیں اور اگر رشتے بنانے میں ھم سے تھوڑی سی بھی غلطی ھو جاے تو ساری زندگی بھی تباہ ھو سکتی ھے اور نسلیں بھی تباہ ھو جایا کرتی ھیں ۔۔۔


مجھے فخر ھے آپ کے والد صاحب پر کہ انھوں نے آپ کو حقیقت سے آگاہ نہی کیا اور پھر بھی آپ لوگوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالتے رھے لیکن دیکھنا یہ ھے کہ اولاد اپنے والدین کا کتنا خیال رکھتی ھے والدین تو ھمیشہ سے ھی اولاد کیلئے قربانیاں دیتے آئے ھیں ۔۔

ابھی اولاد کی باری ھے اور مجھے فخر ھے اپنی اولاد پر کہ آج کچھ بھی ھو جاے میری اولاد مجھے ھمیشہ ترجیح دیتی ھے میرے لئے پہلے خریدتی ھے بعد میں اپنے بیوی بچوں کیلئے کچھ خریدا جاتا ھے اور مجھے فخر ھے اپنی اولاد کی اولاد پر کہ وہ بھی اپنے والدین کو اپنی زندگیوں سے زیادہ ترجیح دیتی ھے اور ھمارا پورا خاندان ایک جان کی مانند ھے اگر کسی کو کسی بھی چیز کی۔ضرورت پڑ جاے تو پیٹھ دیکھا کر نہی بھاگتے بلکہ ضرورت سے زیادہ لے کر آتا ھے ۔۔۔۔


اس لئے میرے بیٹے رشتے بنانا بہت آسان ھے لیکن کامیاب رشتے چننا اور انکو نبھانا بہت مشکل ھے ۔۔کہیں ایک نا اہل رشتہ آپ کو اتنا بڑا نقصان دے سکتا ھے کہ ساری عمر کی۔خوشیاں غموں میں تبدیل ھو سکتی ھیں اور کامیاب رشتہ آپکو ایسا سہارا دے سکتا ھے کہ تمام زندگی کے غم خوشیوں میں تبدیل ھو سکتے ھیں۔۔۔


اتنی بات کرنے کے بعد آنٹی اٹھ کر چلی گئیں ۔۔اور میری آنکھوں کے سامنے میرے والدین کا چہرہ گھومنے لگا ۔میری گاڑی میرے والد کی گاڑی سے بہتر تھی ۔میرا لباس میرے والد کے لباس سے بہتر تھا ۔میرے گھر کی زیب و زینت کا سامان میرے والد کے گھر سے بہتر تھا ۔میری بیوی ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں اور کنگن تھے جو میں نے خرید کر دئیے تھے لیکن میری ماں کا سارا زیور بک چکا تھا میں آج بھی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر لیکن میرا باپ آج بھی اولاد کی زمہ داریاں نبھا رہا تھا ۔۔

میں نے آج بھی اپنی بیوی کیلئے سونے کی انگھوٹھی خریدی لیکن میرے ذھن میں میری ماں کا خیال کیوں نہ آیا جس نے میری شادی کیلئے اپنا زیور بیچ دیا ۔۔


مجھے افسوس ھوا اپنے آپ پر کہ میں نے اپنے والدین سے زیادہ اپنی ذات کو ترجیح دی ھے میرے والدین جنہوں نے مجھے سب کچھ دیا اور میں نے ان سے سب کچھ لے کر انکو خالی کر دیا لیکن کبھی انہوں نے مجھ سے کوئی گلہ یا شکوہ نہی کیا ۔۔۔

میرے والدین کل بھی عظیم تھے اور آج بھی عظیم ھیں اور میں کل بھی ناکام تھا اور آج بھی ناکام ھوں