امانت کا اصلی حق دار || The real holder of the trust

GR SONS

امانت کا اصلی حق دار




  دوپہر کا وقت تھا میں گھر میں آرام کر رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی میں اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے ایک بزرگ خاتون نظر آئیں وہ کافی تھکی ہوئی اور پریشان لگ رہی تھی 


مسکرا کر کہنے لگی "بیٹا تم سلمان صدیقی ہی ہو ناں! ؟ میں نے کہا "اماں آپ اندر تو آ جائیں بیٹھ کر اطمینان سے بات کرتے ہیں آپ بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہیں آپ کی سانسیں بے ترتیب ہو رہی ہیں 


یہ بھی پڑھیں

یقین کی پختگی


میں اماں کو اندر صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پانی لینے چلا گیا جب بوڑھی اماں پانی پی چکی تو میں نے کہا "ہاں ! اب بتاؤ اماں کیا بات ہے ؟ اماں کہنے لگی "بیٹا میں آپ کی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور مرحوم اکرم کی والدہ ہوں" 


میں خاموشی اور دھیان لگا کر بزرگ اماں کی باتیں سن رہا تھا وہ آگے کہنے لگی " میری بیٹی کی شادی طے ہو چکی ہے انقریب نکاح کی تاریخ مقرر ہے میں چاہتی ہوں آپ وہ رقم مجھے دے دو جو میرے مرحوم بیٹے نے اپنی بہن کی شادی کیلئے آپ کے پاس بطور امانت جمع کی تھی -


"اماں کیا آپ کو یہ پتہ ہے کہ آپ کے مرحوم فرزند کی کتنی رقم میرے پاس بطور امانت پڑی ہے ؟ "ہاں بیٹا مجھے پتہ ہے کل ملا کر دو لاکھ روپے بنتے ہیں" اماں آپ کو رقم برابر یاد ہے ٹھیک ہے میں وہ رقم آپ کو دے دیتا ہوں -


میں نے پوری رقم لا کر اماں کے حوالے کر دی بوڑھی اماں رقم لے کر دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہو گئ میں بھی روزمرہ کے مشاغل میں مصروف ہو چکا تھا اور اس واقعے کو بھول چکا تھا کہ اچانک ایک دن صبح صبح وہی بزرگ خاتون میرے گھر آ گئی ان کے پاس ایک تھیلا تھا 


ان بزرگ اماں کی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ ساتھ شرم بھی تھی وہ میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی " بیٹا مجھے معاف کرنا میں نے یہ سب جان کر نہیں کیا خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں بیٹا یہ غلطی مجھ سے انجانے میں ہوئی ہے میں کوئی دھوکے باز یا ٹھگ نہیں ہوں


یہ بھی پڑھیں

دوسری شادی اور ھم پاکستانی


"میں جانتا ہوں اماں آپ کو اپنے بارے میں صفائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں میں تو اسی دن سمجھ گیا تھا کہ آپ غلطی سے میرے پاس آ گئ ہے کیونکہ نہ تو میں سلمان صدیقی ہوں نہ میری کوئی فیکٹری ہے اور نہ آپ کا فرزند میرے یہاں مزدوری کرتا تھا"    


"ہاں بیٹا مجھے بھی تب پتہ چلا جب اصلی والا سلمان صدیقی میرے پاس رقم لے کر آیا تب تک میں آپ کی رقم بیٹی کے نکاح میں خرچ کر چکی تھی اسلے میں یہ آپ کی امانت واپس لائی ہوں بوڑھی اماں اپنے ساتھ لایا ہوا تھیلا میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی "گن لو بیٹا پورے دو لاکھ ہے" 


"اماں اس کی کیا ضرورت تھی یہ آپ ہی رکھ لیں" نہیں بیٹا میں یہ پیسے نہیں لے سکتی لاکھ منتیں کرنے پر بھی بزرگ خاتون نہیں مانی اور پیسے لوٹا کر چلی گئی