وفا دوستی
ایک زمانے میں ایک بہت امیر نوجوان تھا، اور اس کے والد لعل و جواھر کی تجارت کیا کرتے تھے۔
اپنے حلقہ دوست و احباب میں اس کی بات چلتی تھی اور وہ اپنے دوستوں کے ساتھ انتہائی ایثار و محبت سے پیش آتا تھا۔ بدلے میں، وہ بے مثال انداز میں اس کی عزت اور احترام کرتے تھے۔
دن گزرتے گئے، نوجوان کے والد کا انتقال ہو گیا اور خاندان بہت غریب ہو گیا۔ چنانچہ نوجوان نےاپنی خوشحالی کے دنوں کے پرانے دوستوں کو ڈھونڈنا شروع کیا
اسے پتہ چلا کہ اس کا سب سے پیارا دوست جس کی وہ تکریم کرتا تھا، جس کے ساتھ اسے بہت پیار تھا، جو کبھی اس کی بات کو نہیں ٹالتا تھا بہت زیادہ امیر ہو چکا ہے۔ اور بہت زیادہ محلات اور جائیداد کا مالک بن چکا ہے۔
چنانچہ وہ اس کے پاس اس امید سے گیا تاکہ وہ اسے کسی نوکری پر رکھ لے یا پھر اس کے حالات بہتر کرنے کا کوئی راستہ تلاش کرنے میں اس کی مدد کرے۔
یہ بھی پڑھیں
جب وہ محل کے دروازے پر پہنچا تو خدام و حشام نے اس کا استقبال کیا۔
اس نے ان سے گھر کے مالک سے اپنے تعلقات اور ان کے درمیان پرانی محبت کا ذکر کیا۔
خدام گئے اور اپنے مالک کو ان کے جگری دوست کے آنے کی خبر سنائی۔ وہ اٹھ کر پردے کے پیچھے سے ایک ایسے شخص کو دیکھتا ہے جس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں اور غربت و فقیری اس کے چہرے سے عیاں ہے لہذا اس نے ملنے سے انکار کر دیا۔
امیر دوست کے خادم اسے بتاتے ہیں کہ ہمارا مالک کسی سے بھی نہیں ملنا چاہتا۔ پس وہ محل سے اس درد و الم کے ساتھ نکلا کہ کیسے یہ رشتہ محض میری غربت کے سبب مر چکا ہے۔ اور کیسے لوگوں کے دلوں سے اقدار و مروت ختم ہو گئی ہے؟
محل کے قریب اس نے دیکھا کہ تین لوگ آپس میں بحث کر رہے ہیں جیسے وہ کسی چیز کے بارے میں استفسار کر رہے ہوں۔
وہ ان سے پوچھتا ہے کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟
وہ اس کے والد کا نام لے کر کہتے ہیں کہ وہ فلاں ابن فلاں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
اس نے ان سے کہا کہ وہ میرے والد ہیں، اور وہ بہت عرصہ پہلے فوت ہوچکے ہیں۔ جس پر وہ بہت افسردہ ہوئے، وہ اس کے والد کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے والد لعل و جواھر کے بہت بڑے تاجر تھے ۔
ہمارے پاس مرجان کے قیمتی ٹکڑے ہیں جو اس نے امانت کے طور پر ہمارے پاس چھوڑے تھے۔
چنانچہ انہوں نے مرجان سے بھرا ہوا ایک بہت بڑا تھیلا اس کے حوالے کیا اور چل دیے۔
اس نوجوان پر حیرت طاری ہو جاتی ہے اور اسے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آتا کہ وہ اسے کیسے سچ مان لے۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ اسے کہاں اور کس کو بیچے کیونکہ اس کے شہر میں تو کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جو اس کی قیمت ادا کر سکے۔
لہذا وہ کسی تاجر کی تلاش میں نکلا، تھوڑی دیر کے بعد ایک بڑی عمر کی خاتون سے اس کی ملاقات ہو گئی جو شکل و شباہت سے نیک سیرت لگتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں
اس خاتون نے اس سے پوچھا کہ بیٹا مجھے آپ کے شہر میں جوہری کی تلاش ہے، کہاں ملے گا؟ نوجوان نے پوچھا کہ آپ کس قسم کے جوھر خریدنا چاہتی ہیں؟ خاتون نے جواب دیا! مجھے خوبصورت پتھروں کی تلاش ہے، چاہے وہ کسی بھی قسم کے ہوں اور ان کی قیمت کوئی بھی ہو۔
نوجوان نے پوچھا! کیا آپ مرجان خریدنا چاہیں گی؟ اس نے کہا، میں بالکل خریدوں گی۔
نوجوان نے مرجان کے کچھ ٹکڑے تھیلے سے نکالے اور خاتون کے حوالے کر دیے۔
خاتون نے جب قیمتی پتھر دیکھے تو حیران رہ گئی اور وہ ٹکڑے خرید لیے اور یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ وہ باقی والے ٹکڑے خریدنے کے لیے دوبارہ آئے گی۔
یوں نوجوان کے حالات میں بہتری آنے لگی اور اس کی تجارت بحال ہونے لگی۔ پھر اسے اپنے دوست کی یاد آئی جس نے برے حالات میں اس سے ملاقات کرنا گوارا نہ کی۔ تو اس نے ایک خط میں دو اشعار لکھ کر بھیجے!
ترجمہ:
میں ایسے دوستوں کی صحبت میں رہا جن میں وفا نہیں
جو حیلوں اور بہانوں سے دوستی نبھاتے ہیں
وہ میری امیری کے وقت مجھے عزت دیتے ہیں
اور جب میں مفلس ہو گیا تو وہ جاھلوں والا معاملہ کرتے ہیں
یہ بھی پڑھیں
جب اس کے دوست نے یہ اشعار پڑھے تو اس نے جواب میں تین اشعار لکھ کر بھیجے
ترجمہ
جہاں تک تین لوگوں کی بات ہےجو محل کے باہر ملے ہیں
وہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک چال تھی
جس عورت نے تم سے مرجان خریدا وہ میری ماں تھی
اور تم میرے بھائی ہو اور میری آخری امید بھی
ہم نے آپ کو بخل و کنجوسی کے سبب نہیں واپس کیا
لیکن ہمیں خوف تھا کہ تم ہمارے سامنے شرمندہ نہ ہو جاؤ