چودہ اگست اور ہم || August 14th and we

GR SONS


چودہ اگست اور ہم


  

سری لنکا کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیوالیہ ہوتا دیکھا، لیکن وہاں کی عوام اپنے ملک سے فرار ہوتی یا یہ کہتی نظر نہیں آئی کہ "دنیا اپنی سرحدیں ہمارے لیے کھول دے اور ہمیں ویزے دے" ، نہ ہی سری لنکن عوام نے سوشل میڈیا پر اپنے ملک کی توہین اور بےتوقیری کی اور نہ مہنگائی کے مارے سری لنکن مڈل کلاس طبقے نے اپنے قومی دن کے موقع پر کروڑوں روپے کا پیٹرول ضائع کیا ...


یہ بھی پڑھیں

وزیر نے کہا: بادشاہ  سلامت، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر، صراحی پر لکھئے اس میں تمہارے لئے سو درہم ہدیہ ہے،  رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر


اسکے برعکس ہم پاکستانیوں کی حالت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ملک و ملت کی خوب جگ ہنسائی کرنے، گالیاں دینے اور پورے دن مہنگائی کا رونا رونے کے باوجود جشنِ آزادی پر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پاکستانی کروڑوں روپے کا "مہنگا ترین" پیٹرول موٹر سائیکلوں میں ڈلوائیں گے اور سڑکوں پر لغویات و فضول خرچی کرتے نظر آئیں گے !

ہسپتالوں کے سامنے سے بغیر سائیلنسر لگے موٹر سائیکل گزاریں گے یہ جانے بغیر کے اس سے کتنی تکلیف ہوتی ہے

اور اب تو ایک نئی چیز آگئی ہے باجا

جسے دیکھو پاں پاں کرتا نظر آتا ہے 

بچے تو بچے بڑے بھی اس کو بجانا آزادی حق سمجھتے ہیں
جیسے کہ ملک آزاد ہی صرف باجے بجانے اور شور و غل کے لیے کیا گیا تھا


یہ بھی پڑھیں

آج 24 سال بعد اس کو اپنی نظر سے دنیا کو دیکهنے کا موقعہ ملا ہے اس کا یہ رویہ آپ کے نزدیک احمقانہ ضرور ہوگا لیکن میرے لیے یہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے. وہ جوڑا لڑکے کے باپ کے پاس آکر بہت سے ان کہے الفاظ اور آنکهوں میں شرمندگی کے آنسو لیے ہوئے بیٹھ جاتا ہے. اور انکی خوشی میں شامل ہوتا ہے۔ 


وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

" اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق فراوانی کے ساتھ ہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اُن گناہوں کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔"

(سورۃ النحل آیت 112)


انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات ۔

(اقبال)