بھٹے والا اور لمبی گاڑی || Bhaty wala aur lambi gari

GR SONS

بھٹے والا اور لمبی گاڑی


 

ایک بھٹے والا ٹھیلا چلاتا تھا۔ روز اس کے پاس ایک بچہ آتا تھا، جو اس سے بھٹہ لیا کرتا تھا، “چاچا ایک بھٹہ تو دے دو”۔ وہ دے دیا کرتا تھا۔


ایک دن ایک لمبی سی گاڑی اس بھٹے والے کے پاس آئی اور اسے 20 بھٹوں کا آڈر دیا. بھٹے والا بہت خوش ہوا، اس نے اسے اچھا اچھا سا بنا کر دے دیا۔ اگلے دن پھر وہی گاڑی دوبارہ آئی اور پھر 20 بھٹوں کا آڑد دیا۔ ایسے وہ گاڑی والا روز اپنے بچوں اور گھر والوں کے لئے 20 بھٹے لے جانے لگا۔ بھٹے والے کا کاروبار بھی اسی طرح اچھا ہونے لگا۔


ایک دن بھٹے والا بڑا مصروف تھا اسی لمبی گاڑی والے کے بھٹے تیار کرنے میں، اتنے میں وہی بچہ آیا جو روز اتا تھا اور کہا؛ ”چاچا ایک بھٹہ تو دے دو”. تو بھٹے والے نے کہا “ابھی جاؤ یہاں سے، میرے پاس وقت نہیں، میں مصروف ہوں. بار بار آ جاتے ہیں بھٹہ مانگنے”! بچہ چلا گیا.


یہ بھی پڑھیں

لوگوں نے اس کو چوری کا لائسنس سمجھ لیا۔ وہ بڑے بیگ لیکر اسٹورز میں داخل ہوتے اور بھر کر بے ڈھڑک باہر نکل جاتے۔ اسٹورز کی طرف سے ملازمین کو ھدایت تھی کہ وہ چوروں کی مزاحمت نا کریں کیونکہ چوروں کے زخمی ہونے کی صورت


بھٹے والا بھٹے تیار کر کے انتظار کرتا رہا، وہ لمبی سی گاڑی اس دن نہ آئی ، بھٹے والے نے قدرت کے ماجرے کا نوٹس نہ لیا۔ اگلے دن پھر وہ انتظار کرتے رہا، وہ لمبی گاڑی پھر نہیں آئی. اس کے اگلے روز دوبارہ انتظار کے باوجود گاڑی نہ آئی۔ ایسے ایک ہفتہ گزر گیا، اب تک بھٹے والے کو سمجھ نہ ایا کہ قدرت کا ماجرا ہے کیا؟ پھر وہ بچہ آیا بھٹے والے کے پاس “چاچا ایک بھٹہ تو دے دو۔” بھٹے والے نے بچے کی طرف دیکھا اور پھر بھی نہ سمجھا کہ قدرت کا ماجرا کیا ہے. بہرحال اس کو ایک بھٹہ دے ہی دیا. یہاں اس نے بھٹہ دیا گھنٹے دو گھنٹے کے بعد وہ لمبی گاڑی آ گئی کہ “بھائی 20 بھٹے دے دو۔” اس نے جلدی جلدی بھٹے بنائے اور گاڑی والے کو دے دیا۔ گاڑی کے مالک سے پوچھا “سرکار آپ ایک ہفتے سے کہاں تھے؟ “ تو مالک نے کہا “یہ میرے دفتر سے گھر جانے کا رستہ ہے، یہاں رستے میں ایک پٹرول پمپ ہے، اس پمپ سے میں گاڑی میں تیل بھرواتا ہوں۔ ایک بار اس کے پٹرول میں کچرا آ گیا تو میں نے وہاں سے اپنا رستہ بدل لیا۔ اب میں دوسرے رستے سے جاتا ہوں اور دوسرے پمپ سے تیل بھرواتا ہوں۔ لیکن اس پمپ کے مالک نے مجھے رابطہ کیا اور کہا میرے ملازمین کی غلطی ہے۔ اگلی بار سے ایسا نہیں ہو گا. تو میں نے اسے معاف کر دیا۔ اور اپنا یہ رستہ واپس اختیار کر لیا”.


یہ بھی پڑھیں

چنانچہ بیٹیوں نے کھانا بنا کر کمرے میں رکھ دیا ، رات کو تہجد کے لیے مصلٰی بھی رکھ دیا اور وضو کے لیے لوٹا بھی ۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کھانا کھایا اور کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد لیٹ گئے


بھٹے والا گھر گیا رات بھر سوچتآ رہا۔ پھر اسے سمجھ آیا کہ جب اس نے بچے کو بھٹہ دینا بند کیا تو اللہ نے اس لمبی گاڑی والے کے پٹرول میں بھی کچرا ڈال دیا اور جب اس نے بچے کو بھٹہ دینا شروع کیا تو اللہ نے اس گاڑی والے کا معافی نامہ اس پمپ والے سے کروا دی۔ گویا اس کا اپنا رزق اس بچے کے پیٹ سے جڑا ہوا تھا جو نہ تو اس کا ملازم تھا، نہ ہی اولاد تھی، نہ ہی جاننے والا تھا۔ بس اللہ کا ایک بندہ تھا، پھر وہ یہ سمجھ گیا کہ کسی کو رزق پہنچانے کے لئے اللە کسی کو رزق دیتا ہے اور جب ہم وہ رزق نہیں پہنچاتے تو اللہ ہمارا رزق بھی روک دیتا ہے اور وہ بندہ کون ہوتا ہے یہ ہم کبھی نہیں جان سکتے...