قانون نمبر ننانوے || Law No Ninety-nine

GR SONS


قانون نمبر ننانوے



 بادشاہ وقت نے اپنے وزیر خاص سے پوچھا: یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں۔ جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں ھے ، اور میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ھے ۔ 


وزیر نے کہا: بادشاہ سلامت، اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کر کے دیکھئے ۔ 


بادشاہ نے پوچھا: اچھا ، یہ قانون نمبر ننانوے کیا ہوتا ھے ؟


وزیر نے کہا: بادشاہ  سلامت، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر، صراحی پر لکھئے اس میں تمہارے لئے سو درہم ہدیہ ہے،  رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر ادھر اُدھر چھپ جائیے اور تماشہ دیکھ لیجیئے۔ 


یہ بھی پڑھیں

 آپ کے نزدیک احمقانہ ضرور ہوگا لیکن میرے لیے یہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے. وہ جوڑا لڑکے کے باپ کے پاس آکر بہت سے ان کہے الفاظ اور آنکهوں میں شرمندگی کے آنسو لیے ہوئے بیٹھ جاتا ہے. اور انکی خوشی میں شامل ہوتا ہے۔ 


بادشاہ نے،  جیسے وزیر نے سمجھایا تھا،  ویسے کیا، صراحی رکھنے والے نے دروازہ کھٹکھٹایا اور چھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا۔ 


اندر سے خادم نکلا، صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا۔ درہم گنے تو ننانوے نکلے، جبکہ صراحی پر لکھا سو درہم تھا۔ اس نے سوچا ، یقیناً ایک درہم کہیں باہر گرا پڑا ھو گا ۔


یہ بھی پڑھیں

اس نے دیکھا کہ بوڑھی عورت خاموش رہی تو نوجوان عورت نے اس سے پوچھا کہ جب اس نے اسے اپنے تھیلے سے ٹھوکر ماری تو اس نے شکایت کیوں نہیں کی؟


خادم اور اس کے سارے گھر والے باہر نکلے اور درہم کی تلاش شروع کر دی۔ ان کی ساری رات اسی تلاش میں گزر گئی۔ خادم کا غصہ دیدنی تھا، کچھ رات صبر اور باقی کی رات بک بک اور جھک جھک میں گزری۔ خادم نے اپنے بیوی بچوں کو سست بھی کہا کیونکہ وہ درہم تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔ 


دوسرے دن یہ ملازم محل میں کام کرنے کیلئے گیا تو اس کا مزاج مکدر، آنکھوں سے جگراتے، کام سے جھنجھلاہٹ، شکل پر افسردگی عیاں تھی۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ ننانوے کا قانون کیا ہوا کرتا ھے ۔ 


یہ بھی پڑھیں

وہ بادشاہ کے محل کے سامنے رُکے، اور جب بادشاہ اپنے قافلہ سمیت محل سے نکلے تو ایک بے ہوش انسان کی طرح خود کو اسکے سامنے گرا دے۔۔۔ اور جو گزرے وہ ماں کو سنائے۔۔۔


لوگ ان ننانوے نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو الله تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہوتی ہیں۔ اور ساری زندگی اس ایک نعمت کے حصول میں سر گرداں رہ کر گزار دیتے ہیں جو انہیں نہیں ملی ہوتی۔ 


اور یہ رہ جانے والی نعمت بھی الله کی کسی حکمت کی وجہ سے رُکی ہوئی ہوتی ھے ،

جسے عطا کر دینا الله سبحانه وتعالى کیلئے بڑا کام نہیں ھوا کرتا۔ 


لوگ اپنی اسی ایک مفقود نعمت کیلئے سرگرداں رہ کر اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں کی لذتوں سے محروم رہ کر ، اپنے مزاجوں کو مکدر (گرد آلود) کر کے جیتے ہیں۔ 


اپنی ننانوے مل چکی نعمتوں پر الله تبارک و تعالٰی کا احسان مانیئے اور ان سے مستفید ہو کر شکرگزار بندے بن کر رہیئے۔


 اللّٰہ  ہمیں اپنے شکر گزار بندے بنا دے۔ آمی