خود کی پہچان || Self recognition

GR SONS


 خود کی پہچان




 

ایک دانا آدمی کی گاڑی گاؤں کے قریب خراب ہوگئی۔ اس نے  سوچا کہ گاؤں میں سے کسی سے مدد لیتا ہوں۔

وہ جیسے ہی گاؤں میں داخل ہوا تو  اس نے دیکھا ایک بوڑھا شخص چارپائی پر بیٹھا ہے اور اس کے قریب مرغیاں دانہ چگ رہی ہیں۔ ان مرغیوں میں ایک باز کا بچہ بھی ہے، جو مرغیوں کی طرح دانے چگ رہا ہے۔ وہ حیران ہوا اور اپنی گاڑی کو بھول کر اس بوڑھے شخص سے کہنے لگا کہ یہ کیسے خلاف قدرت ممکن ہوا کہ ایک باز کا بچہ زمین پر مرغیوں کے ساتھ دانے چگ رہا ہے ۔

 

تو اس بوڑھےشخص نے کہا دراصل یہ باز کا بچہ صرف ایک دن کا تھا جب یہ پہاڑ پر مجھے گرا ہوا ملا۔ میں اسے اٹھا لایا۔ یہ زخمی تھا میں نے اس کو مرہم پٹی کرکے اس کو مرغی کے بچوں کے ساتھ رکھ دیا۔ جب اس نے پہلی بار آنکھیں کھولیں تو اس نے خود کو مرغی کے چوزوں کے درمیان پایا۔ یہ خود کو مرغی کا چوزہ سمجھنے لگا اور دوسرے چوزوں کے ساتھ ساتھ اس نے بھی دانہ چگنا سیکھ لیا ۔


یہ بھی پڑھیں

ایک دن ایک لمبی سی گاڑی اس بھٹے والے کے پاس آئی اور اسے 20 بھٹوں کا آڈر دیا. بھٹے والا بہت خوش ہوا، اس نے اسے اچھا اچھا سا بنا کر دے دیا۔ اگلے دن پھر وہی گاڑی دوبارہ آئی اور پھر 20 بھٹوں کا

 

اس دانا شخص نے گاؤں والے سے درخواست کی کہ یہ باز کا بچہ مجھے دے دیں، تحفے کے طور پر یا اس کی قیمت لے لیں۔ میں اس پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں۔

اس گاؤں والے نے باز کا بچہ، اس دانا شخص کو تحفے کے طور پر دے دیا۔

یہ اپنی گاڑی ٹھیک کروا کر اپنے گھر آ گیا ۔

 

وہ روزانہ باز کے بچے کو چھت سے نیچے پھینک دیا کرتا، مگر باز کا بچہ مرغی کی طرح اپنے پروں کو سکیڑ کر گردن اس میں چھپا لیتا۔ وہ روزانہ بلاناغہ باز کے بچے کو اپنے سامنے ٹیبل پر بیٹھاتا اور اسے کہتا کہ تو باز کا بچہ ہے، مرغی کا نہیں۔ اپنی پہچان کر۔

 

اسی طرح اس نے کئی دن تک اردو، پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو ہر زبان میں اس باز کے بچے کو کہا کہ تو باز کا بچہ ہے، مرغی کا نہیں۔ اپنی پہچان کر، اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرو۔

 

آخر کار وہ دانا شخص ایک دن باز کے بچے کو لے کر ایک بلند ترین پہاڑ پر چلا گیا اور اسے کہنے لگا کہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرو۔ تم باز کے بچے ہو اور اس شخص نے یہ کہہ کر باز کے بچے کو پہاڑ کی بلندی سے نیچے پھینک دیا ۔


یہ بھی پڑھیں

لوگوں نے اس کو چوری کا لائسنس سمجھ لیا۔ وہ بڑے بیگ لیکر اسٹورز میں داخل ہوتے اور بھر کر بے ڈھڑک باہر نکل جاتے۔ اسٹورز کی طرف سے ملازمین کو ھدایت تھی کہ وہ چوروں کی مزاحمت نا کریں کیونکہ چوروں کے


باز کا بچہ ڈر گیا اور اس نے مرغی کی طرح اپنی گردن کو جھکا کر پروں کو سکیڑ لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ زمین تو ابھی بہت دور ہے، تو اس نے اپنے پر پھڑ پھڑائے اور اڑنے کی کوشش کرنے لگ۔ا

 

جیسے کوئی آپ کو دریا میں دھکا دے دے تو آپ تیرنا نہیں بھی آتا تو بھی آپ ہاتھ پاؤں ماریں گے ۔


تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے آپ کو بیلنس کرنے لگا کیونکہ باز میں اڑنے صلاحیت خدا نے رکھی ہوتی ہے ،تھوڑی ہی دیر میں وہ اونچا اڑنے لگا ۔وہ خوشی سے چیخنے لگا اور اوپر اور اوپر جانے لگا ۔


یہ بھی پڑھیں

چنانچہ بیٹیوں نے کھانا بنا کر کمرے میں رکھ دیا ، رات کو تہجد کے لیے مصلٰی بھی رکھ دیا اور وضو کے لیے لوٹا بھی ۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کھانا کھایا

 

کچھ ہی دیر میں وہ اس دانا شخص سے بھی اوپر نکل گیا اور نیچے نگاہیں کرکے اس کا احسان مند ہونے لگا۔

تو دانا شخص نے کہا:

” اے باز میں نے تجھے تیری شناخت دی ہے، اپنے پاس سے کچھ نہیں دیا۔ یہ کمال صلاحیتیں تیرے اندر موجود تھیں،

مگر تو بےخبر تھا۔”

 

یہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہے

ہماری ایک خاص شناخت ہے

 ہم ایک خاص امت کے ارکان ہیں

ہمارے اندر اللہ رب العزت نے بے پناہ صلاحیتیں رکھی ہیں

مگر پرابلم یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد بے شمار مرغیاں ہیں جن میں ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات بھی شامل ہیں

جو مسلسل ہم کو بتاتے ہیں کہ ہم باز کے بچے نہیں مرغی کے بچے ہیں

جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم بہادر اور طاقتور نہیں ہو بلکہ بزدل اور کمزور ہو

تمھاری تو قوم ہی ایسی ہے

تم دہشتگرد ہو تم لوگ آگے نہیں بڑھ سکتے

کامیابی کی شرط یہ ہے کہ ہم خود کو پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ ہم ایک بہترین امت اور بہترین قوم بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔