ایسے ہوتے تھے مسلمان بادشاہ
پنڈت لالہ رام کاسی بِنَارَسْ کے پنڈتوں میں سے ایک مشہور گھرانہ تھا ۔اطرافِ ہند سے یاتریوں کی بہت بڑی تعداد پنڈت کے گھر میں ہر وقت جمع رہتی تھی ۔
ادھیڑ عمر میں پنڈت لالہ رام کاسی کے ہاں پہلی اولاد لڑکی کی صورت میں پیدا ہوئ ۔۔۔۔۔
بچی کیا تھی کہ حسن کی دیوی تھی ۔پنڈت لالہ رام نے اپنی بچی کا نام شنکلا رکھا ۔شنکلا نے چودہ سال کی عمر میں ہندو مذھب کی تعلیمات کی تمام کتابیں مکمل پڑھ لیں ۔
حسن کی پری پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ شنکلا دیوی عقل وفھم کی بھی مھارانی تھی ۔وہ صبح صبح جب گنگا اشنان کےلئے نکلتی تھی تو دیکھنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی مجال ہے کہ شنکلا دیوی حیاء کی وجہ سے آنکھ اٹھاکر بھی کسی کو دیکھتی ہو ۔
اِنہی دنوں بِنَارَسْ میں ابراہیم نامی ایک شخص کو سلطنتِ مغلیہ کی طرف سے نیا کوتوال بناکر بنارس بھیجاگیا ۔
یہ شخص انتہاء قسم کا ایک عیاش تھا ہر ہفتے کسی نہ کسی خوبصورت کنواری لڑکی کو اپنے محل کی زینت بناکر اُسکی عزت خراب کرتا تھا ۔
اہلِ بنارس اُس کے ظلم وعیاشی سے تنگ آگئے تھے لیکن کوتوال کے سامنے بولنا گویا خود کو موت کے کنؤیں میں دھکیلنے تھا ۔۔
بڈھے کوتوال کے کارِندے کھوجی کتوں کی طرح بنارس کی گلیوں میں نوجوان کنواری لڑکیوں کو تاڑنے نکلا کرتے تھے۔۔۔۔۔ ایک دن ایک کارندے نے آکر خبر دی کہ سرکار آپ بلاوجہ پریشان ہیں اپنے بنارس میں ایک حسن کی دیوی موجود ہے، عمر میں بالغہ ہوچکی ہے، ۔
یہ بھی پڑھیں
اگر بیٹی ہوئی تو ابھی یہاں اُسے زندہ دفن کرا دوں گا
میں اپنی گردن اپنے داماد کے سامنے جھکا نہیں سکتا
میں بیٹی کی پیدائش پر آنے والی مصیبت برداشت نہیں کر سکتا
سرکار !اپنے پنڈت لالہ جی کی بیٹی شنکلا کنول کے پھول کی طرح ہے آج تک اُسے کسی نے چھوا نہیں ہے ۔
اپنے کارندے کی زبانی شنکلا کی حسن کی تعریف سن کر بڈھے کوتوال کی رال ٹپکنے لگی فوراََ اپنے کارندوں کا بھیجا کہ پنڈت جی حکم کریں کہ ایک ہفتہ کےاندر اندر اپنی بچی کی ڈولی سجاکر ہمارے محل میں پنہچادے اگر پنڈت نے حکم عدولی کی تو انجام اچھا نہیں ہوگا ۔
کارندوں کی زبان بڈھے کوتوال کا پیغام سن کر پنڈت کے گھر میں گویا صف ماتم بچھ گئی ۔جس اکلوتی بچی کو بڑے نازوں سے پالا تھا آج اُسی بچی کو اپنے ہاتھوں سجاکر زندہ زندہ نرکھ (دوزخ) میں ڈالنا پڑرہا ہے ۔
بےخودی کے عالم میں پنڈت اور اُس کی بیوی کا دل چاہا کہ بھاگ جر گنگا میں چھلانگ لگائیں اور اپنے بچی کی عزت لٹتے دیکھنے سے پہلے ہی اپنی زندگی کی چراغ گل کردیں ۔۔۔۔
شنکلا نے منت سماجت کرکے اپنے بابوجی کو خود کشی کرنے سے روکا اور کہا کہ آپ کوتوال کے پاس جائیے اور اُس سے ایک مہینے کی مہلت لیجئے ۔اُن سے کہیئے کہ مھاراج ہماری بچی اکلوتی ہے ہمارے بھی دل کے ارمان ہیں اُس کی ڈولی سجانے کےلئے ہمیں مہلت دیجئے ۔
پنڈت کی زبانی خلافِ توقع جواب سن کر بڈھے کوتوال کی تو گویا من کی مراد پوری ہوگئ ۔
کہا پنڈت جی جائیے تمھیں ایک مہلت ہے ۔
یہ بھی پڑھیں
انہوں نے ادب نہیں پڑھا لیکن ھمیں ادب سکھای
انہوں نے فطرت کے قوانین اور حیاتیات کا مطالعہ نہیں کیا، لیکن انہوں نے ھمیں شائستگی کا فن سکھایا۔
مہلت ملتے ہی شنکلا نے اپنے باپ سے کہا کہ بابوجی دو دن کے اندر اندر میرے لئے شہزادوں کے کپڑوں، کمر پند، پٹکا، اور ایک تلوار کا بندوبست کیجئے اگر بھگوان کی کرپا رہی تو مہینے بعد وہ چَکّی ہی نہیں رہے گی جس سے آٹے کو پیسا جارہا ہے ۔۔۔
دو دن کے اندر اندر شنکلا کو مذکورہ تمام چیزیں پنڈت نے مہیا کیں۔۔۔۔۔۔۔اگلی رات منہ اندھیرے شنکلا بھیس بدل کر گھوڑے پر سوار ہوکر ایک اَن دیکھے سفر کو روانہ ہوئ ۔۔۔۔۔
منزلوں کی مسافتیں طے کرتے ہوئے شنکلا مغلیہ شہزادے کے بھیس میں بھارت کی راجدھانی دِلّی پنہچ گئی ۔۔
جمعہ کا دن ہے بھارت کی راجدھانی دہلی کے جامع مسجد میں نمازیوں کاتانتا بندھا ہوا ہے ۔مختلف علاقوں سے علمائے کرام، مشائخ عظام کی ڈولیاں بھی جامع مسجد کے دروازے پر لگ چکی ہیں ۔
ہرایک شخص جمعہ کی ادائیگی کےلئے اپنی جبینوں کو رب کے حضور جھکانے کےلئے جامع مسجد کی فرش پر بیٹھا ہے کہ اتنے میں آواز آتی ہے "سلطان الہند، بادشاہِ اسلام حضرت اورنگ زیب عالمگیر جمعہ کی ادائیگی کےلئے جامع مسجد تشریف لارہے ہیں ۔
فرائض وسنت کی ادائیگی کے بعد ایک بار پھر اعلان ہوا سارے فریادی اپنی عرضیاں ہاتھ میں رکھئے سلطان مسجد سے تشریف لارہے ہیں ۔
ایک ایک فریادی کی فریاد سنتے ہوئے سلطان جب آخری فریادی سے ملے تو وہ شہزادے کے بھیس میں شنکلا تھی ۔
حقیقت شناس بادشاہ کو پہچاننے میں دیر نہ لگی کہ شہزادے کے روپ میں میرے سامنے ایک جوان خوبصورت لڑکی کھڑی ہے ۔
بادشاہ نے اپنے محل سرا کے خادم خاص کو حکم دیا کہ اِس فریادی کو ہمارے دربار میں لےآئیے اِس کی فریاد ہم وہاں سنیں گے ۔
شنکلا جب سلطان کے دربار میں پنچی تو بادشاہ نے حکم دیا کہ سارے درباری باہر چلے جائیں ۔جب پورا دربار خالی ہوچکا تو سلطان نے اپنی چادر دیتے ہوئے کہا! بیٹی بچیوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ شہزادوں کا روپ اختیار کرلیں کہیئے کیا فریاد ہے آپ کی ؟
شنکلا نے روتے روتے اپنی پوری داستان سنادی ۔داستان سنتے ہوئے سلطان کے چہرے پر ایک رنگ آئے دوسرا جائے ۔
مکمل غم بھری داستان سنانے کے بعد شنکلا نے کہا "دیالو مھاراج " میں برہمن ذات کی ہندو لڑکی ہوں" ۔
سلطان نے کہا بیٹی جائیے اور ڈولی سجانے کی تیاری کیجئے ۔
مایوس کن جواب سن کر شنکلا کے دل کا تو گویا آبگینہ ہی ٹوٹ گیا ۔بوجھل قدموں واپس ہوئ ۔
مہلت میں صرف اب ایک دن رہ گیا ہے شنکلا دلہن کی طرح سج دھج کر ڈولی میں بیٹھ گئی ہے ۔
بڈھے کوتوال کی آج خوشی کا دن ہے ۔وہ اپنے مونچھوں کو تاؤ دےکر تخت پر بیٹھا خوشی سے پھولے نہیں سمارہا۔۔۔۔۔آج اُس کے حرمِ سرا میں شنکلا جیسی حسن کی دیوی داخل ہورہی ہے ۔
بڈھے نے اعلان کیا جب تک میں فقیروں میں روپے پیسے نہ لٹاؤں تب تک شنکلا کی ڈولی حرم میں داخل نہ کی جائے ۔
پورا اہلِ بنارس کوتوال کے ظلم سے تنگ ہے کمزوری کی وجہ سے کوئی بھی بول نہیں پارہا فقیروں میں پیسے لٹائے جارہے اتنے میں ایک فقیر کی آواز آتی ۔۔۔۔۔
مھاراج ہم پر بھی کِرْپا ہو، ہمیں بھی کچھ دیجئے ۔
بڈھے کوتوال نے ناگواری سے جواب دیا جو روپے زمین پر لٹائے جارہے ہیں وہیں سے اٹھائیے ۔
یہ بھی پڑھیں
ﺳﺐ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﺟﻮﺵ ﻭ ﺧﺮﻭﺵ ﺳﮯ ﺭﯾﺲ ﻣﯿﮟ ﺣﺼﮧ ﻟﯿﺎ۔
ﺷﺎﮨﺮﺍﮦ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳِﺮﮮ ﭘﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺭﯾﺲ ﮐﮯ ﺷﺮﮐﺎﺀ ﮐﮯ ﺗﺎﺛﺮﺍﺕ ﭘُﻮﭼﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ۔
ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺷﺎﮨﺮﺍﮦ ﮐﯽ ﺗﮭﻮﮌﯼ، ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﯽ
فقیر نے التجانہ لہجہ میں کہا مھاراج! آج تو آپ کی من کی مراد پوری ہورہی اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں آپ اپنے ہاتھ سے روپے دیں ۔
روپے نکالنے کےلئے بڈھا کوتوال جونہی مڑا تو تو فقیر نے میلا کچیلا لباس پھینک دیا اب جب بڈھے کوتوال کی نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کے سامنے سلطان اورنگزیب عالمگیر کھڑے ہیں ۔
مارے خوف کے بڈھے کا خون خشک ہوچکا ۔
پاؤں میں گرکر معافی کا طلب گار ہوا ۔
سلطان نے جلال بھرے لہجے میں کہا! تجھے اس لئے کوتوال مقرر کیا گیا کہ تو میرے رعایہ پر ظلم وستم کرے، بچیوں کی عزتیں برباد کرے ۔
اتنے میں سلطان کافوجی دستہ بھی پنہچ چکا سلطان نے حکم دیا کہ اِس کے دونوں پاؤں میں زنجیر باندھ کر ہاتھیوں کے ساتھ باندھ دئیے جائیں اور ہاتھیوں کو مخالف سمت دوڑا جائے ۔
کوتوال کے ٹکڑے ہوگئے
یوں بڈھے کوتوال کو عبرت ناک سزا دے کر سلطان نے انصاف کا حق ادا کردیا ۔
شنکلا کی ڈولی واپس باعزت اس کے گھر پنہچادی گئ ۔
خیریت معلوم کرنے سلطان بھی وہاں پنہچ گئے سلطان نے کہا بیٹی سب سے پہلے مجھے پانی پلائیے کیونکہ میں نے تمھاری فریاد سننے کے بعد قسم کھائی تھی کہ جب تک تجھے انصاف نہ دلاؤں ،کھاؤں گا پیوں گا نہیں ۔
سلطان کے بھوجن کےلئے شنکلا نے کھانا تیار کیا اپنے گھر کے ایک حصہ میں سلطان کےنماز کےلئے جگہ صاف کیا ۔۔۔۔
جس جگہ سلطان نے دوگانہ ادا کیا شنکلا کے باپ نے اُس جگہ کو مسجد کے لئے خاص کردیا ۔
سلطان نے چاندی کے پتر پر ایک حکم نامہ لکھا کہ اِس مسجد کا انتظام یہی ہندو خاندان والے سنبھالیں گے ۔۔۔
دھریرا نام کی یہ مسجد آج بھی گنگا کنارے اُسی جگہ واقع ہے ۔۔
یہ تھا اسلام کا نظامِ انصاف، ایسے ہوتے تھے مسلمان بادشاہ.