دردِدل
ایک واقع جو یقیناً آپ کی سوچ کا انداز بدل دے گا
وہ لاہور کے علاقے شالیمار میں نان چنے اور سری پائے کی دوکان چلاتا تھا میں نے کئی بار اس کی دوکان سے ناشتہ خریدا تھا مگر اکثر میں دیکھتا جب بھی کوئی بہترین بوٹی یا زیادہ گودے والی ہڈی آتی تو وہ بوٹی کو الگ برتن میں رکھ دیتا اور ہڈی سے گودا نکال کر ہڈی پھینک دیتا مجھے اس کی اس بے ایمانی پر حیرت کم ہوتی مگر غصہ زیادہ آتا تب میں زیر تعلیم تھا کالج میں میرا پہلا سال تھا بچوں جیسی جھجک اور خوف میرے اندر تھا میں چاہ کر بھی سری پائے بیچنے والے سے یہ نہیں پوچھ پایا تھا کہ وہ ایسی بے ایمانی کیوں کرتا ہے ۔۔۔۔
خیر میں دل اور دماغ میں آنے والے سوالات احساسات جذبات کو کبھی زبان تک نہ لا سکا چاہ کر بھی اس دوکان دار کو باتیں نہ سنا سکا اپنی تعلیم مکمل کی اور لاہور کو خیر آباد کہہ دیا
آج ٹھیک تقریباً سات سال بعد میں دوبارہ اسی دوکان پر اپنے دوست کے ہمراہ ناشتہ کرنے گیا میں موٹر سائیکل سے اترا ہی تھا کہ ایک نئے ماڈل کی گاڑی نے آ کر میرے سامنے بریک لگائی اور اندر سے اسی دوکان کا مالک نکلا میں نے اس دوکان دار کو پہلی نظر میں پہچان لیا اور تھوڑی دیر مجھے غور سے دیکھنے کے بعد وہ دوکاندار بھی مجھے پہچان گیا وہ مجھے انتہائی عاجزی اور خوش اسلوبی سے ملا بہت عزت کے ساتھ بٹھایا میرے لئیے بہترین سا ناشتا آرڈر کیا اور ایک بہت ہی بہترین پائے کا پیالہ اٹھا کر دوکان میں لگے پردے کے پیچھے چلا گیا میری دانست میں مجھے جواب مل گیا کہ یہ شخص اپنے لئیے بہترین بوٹی اور گودا الگ کرتا تھا مگر پھر بھی میں دوکان کے مالک سے یہ سوال کرنے کی ٹھان چکا تھا لہذا تھوڑی دیر بعد جب وہ فارغ ہو کر باہر آیا تو ہاتھ دھو کر میری ٹیبل پر آ بیٹھا ۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں
میں بھی ناشتہ کر کے فارغ ہو چکا تھا اور اس کے انتظار میں بیٹھا تھا اس نے آتے ہی ایک بار پھر میرا حال احوال دریافت کیا مجھ سے قریبی عزیزوں کی طرح میری فیملی کے متعلق پوچھا میں نے بھی سب باتوں کا سرسری سا جواب دیا اور آخر میں اپنے ذہن میں موجود سوال کو اس دوکان دار کے سامنے رکھ دیا اور بتایا کہ یہ سراسر بے ایمانی ہے آپ بہترین چیز اپنے لئیے الگ کر کے رکھ لیتے ہیں اس حرام کی کمائی سے آپ نے گاڑی بھی خرید لی ہے میری بات سن کر وہ مسکرایا اور پھر مجھے کہا تم اب بھی بچے ہو اس کے بعد اس نے مجھے جو کہانی سنائی اس کے اختتام پر ہم دونوں رو رہے تھے ۔۔۔
ہوٹل کے مالک نے بتایا کہ میرا نام فہیم ہے میں ساہواڑی سٹاپ پر رہتا ہوں میں جو بہترین بوٹیاں اور ہڈیوں کا گودا الگ کرتا تھا وہ ایک عورت جو راہ خدا میں مجھ سے مانگنے آتی تھی اسے دے دیتا تھا آج وہ عورت بوڑھی ہو چکی ہے چلنے پھرنے سے عاجز ہے جس پردے کے پیچھے میں کھانا لے کر گیا تھا وہ وہیں بیٹھی ہوئی تھی میں نے اس کے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا اس کا منہ صاف کیا اور اپنے ہاتھ صاف کر کے باہر آ گیا میں اس عورت کو نہیں جانتا حقیقت یہ ہے کہ مجھے یہ بھی نہیں پتہ یہ مسلمان ہے یا نہیں مگر یہ مجھ سے مانگتی اللہ کے نام پر تھی اسے نماز روزہ یا کلمے کا کچھ پتہ نہیں تھا مگر چونکہ وہ میرے خالق کے نام پر مانگتی تھی اور مجھے پتہ تھا کہ میرے مالک نے ہی اسے میرے در پر بھیجا ہے اس لئیے میں سب سے بہترین بوٹی اور گودہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی اس عورت کے لئے رکھ لیتا تھا ۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں
اللہ تعالیٰ کے نام پر مانگنے آنے والے کسی شخص کو آج تک میں نے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا کیوں کہ میں بچپن میں یتیم ہو گیا تھا میری ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی بعض دفعہ جب کام نہیں ملتا تھا تو فاقے کرنے پڑتے تھے ان فاقوں کو میری ماں تو برداشت کر لیتی تھی مگر میں نہیں جھیل پاتا میری ماں مجھے لے کر مانگنے نکلتی تھی میری ماں اللہ کے نام پر لوگوں سے فقط میرے لئیے ایک روٹی کا سوال کرتی تھی تو بھی بہت سارے لوگ میری ماں کو دھتکار دیتے تھے میں نے اپنے کانوں سے سنا تھا لوگ میری ماں سے کہتے تھے کہ "رات میرے ساتھ گزارو تو صبح تم دونوں ماں بیٹے کو جہاں سے کہو گی کھانا کھلا دوں گا" میری ماں چپ چاپ آنسو بہاتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر آگے چل دیتی تھی اور گاڑی میں بیٹھے صاحب لوگ پیچھے سے قہقے لگا رہے ہوتے تھے میں نے ماں کے جیتے جی نان چنے اور سری پائے کی ریڑھی لگا لی تھی اللہ تعالیٰ نے الحمدللہ مجھے رزق دینا بھی شروع کر دیا مگر تب تک بھوک سہہ سہہ کر میری بہت ساری بیماریوں کا شکار ہو چکی تھی میرا کاروبار چمکنے سے پہلے میری ماں مر گئی مگر مرتے وقت میری ماں نے مجھے ایک بات کہی تھی
" کسی بھوکی اور مجبور عورت سے اس کی بھوک یا مجبوری کے بدلے جسم نہ خریدنا اللہ تعالیٰ کے نام پر کوئی تم سے مانگنے آئے تو سب سے اچھی چیز دینا کیوں وہ چیز تو مانگنے والے کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو دے رہا ہو گا "
اس نصیحت کے بعد میری #ماں نے صرف موت کی ہچکی کے وقت کلمہ پڑھنے کے لیے آواز نکالی اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے اس جہان فانی کو چھوڑ کر چلی گئی میری ماں کی موت ایک سال بعد میری دوکان بہت اچھے سے چلنے لگی میں بہت اچھا کمانے لگا اور ماں کے مرنے کے اڑھائی سال بعد ایک عورت اپنی تین سال کی بچی کے ساتھ میری دوکان پر آئی اس نے مجھ سے اللہ کے نام پر کھانا مانگا تو میں نے اسے ڈھونڈ کر بہترین سالن اور نان دئیے کیوں کہ اسے دیکھ کر مجھے میری ماں کی نصیحت یاد آ گئی تھی اس کے بعد وہ عورت روز بیٹی کے ہمراہ آ کر اللہ تعالیٰ کے نام پر کھانا مانگتی اور میں ان ماں بیٹی کو بہترین کھانا دے دیتا پھر ایک بار اچانک وہ تین چار دن کے لئیے نہ آئی تو پتہ چلا اس کی بیٹی روڈ ایکسیڈنٹ میں مر گئی ہے میں نے اس سے اس کی بیٹی کے متعلق کوئی سوال نہ کیا تا کہ اسے ہوئی دکھ نہ ہو اس نے اللہ تعالیٰ کے نام پر کھانا مانگا میں نے اسے دے دیا اب میری روٹین بن گئی تھی میں بہترین بوٹی اور گودا نکال کر الگ رکھتا جاتا جوں ہی وہ عورت آ کر میرے خالق کے نام پر ہاتھ پھیلاتی میں اسے بہترین کھانا کھلا دیتا ایک بار وہ کھانا کھا کر میری دوکان سے نکلی ہی تھی کہ تیز رفتار رکشے سے ٹکرا کر گر پڑی اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی میں اسے ہسپتال لے کر گیا اس کا وارث بنا اس کا علاج کرواہا ہسپتال سے فارغ ہو کر اس سے اس کے ورثاء کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ میرا کوئی وارث نہیں بس میرا اللہ ہی وارث ہے میں اس عورت کو اپنے گھر لے آیا اس کی خدمت کر کے وہ ساری کمی پوری کر دی جو اپنی ماں کی خدمت کرنے میں مجھ سے کوتاہی ہو گئی تھی میری مالی حالت ٹھیک تھی مگر پھر اس عورت کے گھر میں ہونے کی وجہ سے کوئی بھی لڑکی مجھ سے شادی کے لئیے تیار نہ تھی مجھے اس عورت کو گھر سے نکالنے کی شرط پر رشتہ آفر ہوا میں نے انکار کر دیا میرا بڑھتا کاروبار دیکھ کر ایک اور فیملی نے مجھے اس بوڑھی عورت کے ساتھ قبول کر لیا یوں میری شادی ہو گئی شادی کے بعد میں نے دوبئی میں اپنے دوست کے ساتھ مل کر ہوٹل بنایا اللہ تعالیٰ نے وہاں سے میرے کاروبار کو برکت دی اور میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا آج میرے پاس اپنی گاڑی گھر بیوی بچے سب کچھ ہے میں دو دن پہلے ہی دوبئی سے آیا ہوں مجھ سے ان بوڑھی ماں جی نے اپنے اس ہوٹل میں جا کر کھانا کھانے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں نے بیوی کے ہمراہ ان کو یہاں بھیج دیا اور خود کچھ کام سے فارغ ہو کر یہاں پہنچا ہوں ان کو کھانا کھلانے کے بعد میں نے آپ کو ٹائم دیا اب دونوں چلتے ہیں ان شاءاللہ پھر ملیں گے
ملاقات کے اختتام پر میں میرا دوست اور وہ دوکان دار تینوں کی آنکھوں میں آنسو تھے جبکہ دوکان پر آئے گاہک ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے میں نے ناشتے کا بل دینا چاہا مگر فہیم نے لینے سے انکار کر دیا میری لاکھ ضد پر بھی وہ نہ مانا تو میں نے مصافحہ کرنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا جوں ہی فہیم نے میرے ہاتھ سے ہاتھ ملایا تو میں نے بے ساختہ فہیم کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور الوداع کہہ کر چل
یہ بھی پڑھیں
اس واقع کے بعد میں نے لوگوں کو منفی نظر سے دیکھنا چھوڑ دیا ہے اس واقع نے میری سوچ بدل دی ہے اور میری چاہتا ہوں میرے قارئین کرام کی منفی سوچ بھی بدل جائے آپ بھی ہر کام میں خیر کا پہلو تلاش کرنے لگیں.