نعمت کے شکر گزار بنو، ناشکری نہ کرو || Be grateful for the blessing, not ungrateful

GR SONS


نعمت کا شکر کریں ناشکری نہیں




نومبر کی ایک سرد رات میں گیارہ بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ ماسٹر اکبر علی نے جا کر دروازہ کھولا تو نقاب پوش لڑکی دروازے سے اندر گیراج میں آ کھڑی ہوئی۔ بولی سر پانچ سو روپے مل جائیں گے؟ ماسٹر صاحب نے پوچھا آپ ہیں کون بتائیں تو سہی؟ اس لڑکی نے چہرے سے نقاب ہٹایا اور بولی میں آپ کی شاگرد آسیہ رحمت ہوں۔ بچے صبح سے بھوکے ہیں۔ چھوٹا بچہ تو بھوک سے نڈھال ہو چکا ہے رو رہا ہے کہ دودھ پینا ہے۔ ماسٹر صاحب نے اسے ایک ہزار دینا چاہا مگر اس نے پانچ سو روپیہ ہی لیا اور چلی گئی۔ اڈے پر جا کر ایک کلو دودھ لیا، ہوٹل سے دال کی ایک پلیٹ اور دس روٹیاں لیکر گھر آگئی۔


یہ بھی پڑھیں

کل میں رات 1:30 بجے دوست کو نیو سیٹلائیٹ ٹاؤن وائے بلاک میں ڈراپ کرکے گھر جا رہا تھا 

جب میں اعوان چوک میں پہنچا تو میرے آگے آگے ایک بائیک والا تھا، عمر تقریباً 35 کے قریب ہوگی ۔۔۔وہ بائیک ٹرن کرتے ہوئے جان بوجھ کر گر گیا

 

‏آسیہ رحمت ایک ایسی لڑکی تھی جو صبح، دوپہر اور شام میں سوٹ بدل کر پہنا کرتی تھی۔ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئی۔ باپ منڈی میں غلے کا تاجر تھا۔ شادی بھی چچا کے گھر ہم پلہ گھرانے میں ہوئی۔ دس سال گزر گئے مگر لاکھ کوشش تعویز دم دوائیوں کے بعد بھی اولاد نہ ہو سکی۔ ایک رات آسیہ نے تہجد پڑھی اور دعا کی کہ یا اللہ میری قسمت میں لکھا رزق کم کر کے مجھے غربت دے دو۔ اس کے بدلے مجھے اولاد چاہیے۔ میں ہر صورت ماں بننا چاہتی ہوں۔ مجھے رزق اور مال و دولت کی حرص نہیں ہے۔

 

‏اگلی صبح خاوند کو دل کا دورہ پڑا اور دوکان پر وفات ہوگئی۔ سارا کاروبار تین بھائیوں نے سمیٹ کر بیوہ کو یہ کہہ دیا کہ وہ مقروض تھا۔ آسیہ کی شادی اسکے ایک نکھٹو اور جواری دیور سے کر دی گئی۔ شادی کے بعد وہ نشہ بھی کرنے لگا۔ اللہ نے سات سال میں تین بیٹے اور ایک بیٹی دی۔ خاوند اب نشے کی اس حالت میں ہے کہ بازوؤں پر بلیڈ سے کٹ لگا کر ان کے اوپر کوئی پاؤڈر ڈالتا ہے۔ ٹیکے لگاتا ہے۔ گھر بیچ کر جوے میں ہار چکا ہے۔ کرائے کا مکان ہے جس کا کرایہ آسیہ لوگوں کے گھروں میں کام کرکے ادا کرتی ہے۔


یہ بھی پڑھیں

"اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو بیت اللہ تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی کا انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو دنیا والوں سے بے نیاز ہے

 

‏ہمارے حق میں کیا بہتر ہے وہ ہم سے زیادہ ہمارا خدا جانتا ہے۔ جب ہم تقدیر کو بدل دینے کی دعا کرتے ہیں۔ تو وہ دعا اگر قبول ہو جائے تو حالات آسیہ جیسے بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک نعمت سے محرومی نجانے کتنی محرومیوں اور آزمائشوں سے ہمیں بچا رہی ہوتی۔ اور اس ایک چیز کے حصول میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر خدا کے لکھے کو بدلنے کا اس سے ہی سوال کر رہے ہوتے ہیں۔

 

‏ایک سپیشل بچے کی ماں چاہتی تھی کہ اس کا بچہ ٹھیک ہو جائے یا مر جائے۔ اس نے خدا سے یہ دن رات یہ دعا کرنا شروع کر دی۔ بچہ وفات پا گیا۔ خاوند نے دوسری شادی کرکے اسے طلاق دے دی۔ کہ اس سے اگلا بچہ بھی معذور ہی ہوگا۔ جب تک وہ بچہ زندہ تھا اس کا خاوند بیوی سے ایسے محبت کرتا تھا جیسے محبت کی داستانوں میں مجنوں اور رانجھے کا کردار ہو۔ جس بچے کو وہ آزمائش سمجھتی تھی اس نے ہی تو ایک بڑی آزمائش روک رکھی تھی۔


‏کبھی بھی آزمائش یا مشکل منہ سے نہ مانگیں۔ ایک خاص نعمت کے لیے میسر نعمتوں کے چھن جانے کی دعا نہ کریں۔ آپ وہ نہیں جانتے جسے "وہ ذات" جانتی ہے۔ جو یہ سب کچھ کنٹرول کر رہی ہے۔ اور اسکی قدرت کا ایک خاص نظام ہے جسے غور و فکر کرنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔