لڑکے بھی مظلوم ہیں تصویر کا دوسرا رخ
عموماً ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو مظلوم تصور کیا جاتا ہے۔ کبھی اس بات پر شور کہ انکو ان کا حق نہیں دیا جاتا، کبھی یہ گلہ کہ انکو لڑکوں جیسی آزادی میسر نہیں، کبھی یہ کہ انکو شادی کے لیے بھیڑ بکریوں کی طرح جانچا جاتا ہے۔کبھی رنگ،کبھی قد، کبھی دبلے یا موٹے ہونے کی وجہ سے بے دردی سے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ یہ تمام باتیں اپنی جگہ حقیقت ہیں۔
لیکن بظاھر مضبوط نظر آنے والے لڑکے بھی مسترد کیے جاتے ہیں۔اور وہ بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے ہیں، انکے بھی جذبات ہوتے ہیں۔ان کے بھی احساسات ہوتے ہیں ، ان کا بھی دل دکھتا اور ٹوٹتا ہے ، لڑکوں کو بھی ان کی سانولی رنگت، کم آمدنی، قد، عمر، نوکری اور کاروبار کی وجہ سے مسترد کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
جب کسی لڑکے کا رشتہ دیا جاتا ہے،تب وہ لڑکا بھی ایک دباؤ اور ٹینشن میں آ جاتا ہے، مختلف قسم کے چونکا دینے والے سوال اس کو حیران اور پریشان کر دیتے ہیں۔
رشتے کے معاملات کرنے والی خواتین جہاں اپنے بیٹے کی حیثیت اور شخصیت دیکھے بغیر بہو کیلئے بہت اونچی جگہ ہاتھ مارنے کی خواہاں ہوتی ہیں، بالکل ایسے ہی لڑکوں کو رد کرنے والی بہت سی مائیں اور لڑکی کی بہنیں بھی کچھ ایسے ہی رویے اختیار کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بالخصوص جب اللہ نے لڑکی کو ذرا سا حُسن دیا ہو، عمر ابھی کم ہو، یا پھر روپیہ پیسہ کی فراوانی ہو تو آپ دیکھیں کیسے توقعات بلند ترین ہوتی ہیں۔کسی آسمان سے اترے شاہ زادے سے کم پر قبولیت نہیں ہوتی۔
بار بار جتایا جاتا ہے کہ ہماری بچی تو اتنی پڑھی لکھی ہے، یا اس میں فلاں فلاں گُن ہیں، ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے اور احساس دلایا جاتا ہے کہ آپ کے لڑکے کی اتنی مالی حیثیت نہیں، یا اس کا رنگ صاف نہیں یا قد چھوٹا ہے وغیرہ۔
یہ بھی پڑھیں
’’ اتنی جلدی کیا ہے شادی کی ؟‘‘ بھئی جب اللّہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نکاح میں دیر مت کرو، تو اس سوال کی کیا تک بنتی ہے۔
اگر لڑکا 30 سال تک شادی نہ کرے، تو لوگوں کی نظر میں وہ لڑکا زندگی انجوائے کر رہا ہے اگر کوئی لڑکا چاہے کہ 22 یا 23 کی عمر میں اس کی شادی کر دی جائے، تاکہ وہ غلط صحبت سے بچا رہے، تو اکثر اسکے والدین ہی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں کہ پہلے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو یا یہ کہ پہلے بیٹیوں کی شادی ہوگی پھر بیٹوں کی۔ بیٹیوں کی شادی کرتے کرتے لڑکے کی عمر زیادہ ہو جاتی ہے۔
اور اس انتظار میں نہ صرف یہ کہ لڑکے بری لتوں میں پڑ جاتے ہیں، بلکہ وہ رشتہ کراتے وقت پھر اسی طرح مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں جیسا کہ کوئی لڑکی ہوتی ہے۔
گھر کے اخراجات پورے کرنا، معاشی کفالت اور خوشی غمی کے تقاضے نبھاتے نبھاتے بعض دفعہ گھر والے ہی یہ بات بھولنے لگتے ہیں کہ اس بیٹے کا بھی گھر بسنا ہے۔اگر غلطی سے کوئی لڑکا کمانے پردیس چلا جائے پھر تو سالہا سال ضرورتوں کی لسٹ ہی ختم نہیں ہوتی گھر والے بھی رشتہ اس تسلی سے سالوں ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ بیٹے کی نظر میں بھی برا نہ بنیں اور بیٹے کیصورت میں یہ ای ٹی ایم بھی ہاتھ سے نہ جائے۔
یہ بھی پڑھیں
’’ماں باپ کے ساتھ رہو گے؟‘‘ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اپنے بیٹے کے لیے کچھ اور، اور داماد کے لیے کچھ اور چاہیے۔
اپنے بیٹے اور بہو کو ہمیشہ ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور ہونے والے داماد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ سے الگ گھر لے۔
کبھی لڑکوں کی ملازمت یا کاروبار لڑکی والوں کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ملازمت کرتا ہے تو کاروبار کیوں نہیں کرتے؟ اور کاروبار کرتا ہے تو اتنا پڑھ لکھ کر کوئی اچھی بے فکری کی ملازمت کیوں نہیں کی؟ کبھی لڑکے کا خاندان بڑا لگتا ہے کہ ہماری بیٹی کیسے رہے گی؟ کتنا کام کرنا پڑے گا تو کبھی لڑکے کے اکلوتے ہونے پر اعتراض ہوتا ہے کہ ساری زندگی ہی ساس، سسر کی خدمت میں گزر جائے گی۔
کبھی زیادہ بہنیں سمجھ نہیں آتیں کہ ہماری بیٹی تو نندیں بیاہتی ہی بوڑھی ہو جائے گی ۔ اور وہ لڑکا جو بڑے اعتماد کے ساتھ شادی کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ بار بار مسترد ہونے کی وجہ سے اپنا اعتماد کھو دیتا ہے۔شادی کے نام سے بیزار ہونے لگتا ہے۔ جس لڑکے کی خوش اخلاقی مشہور تھی وہ انتہائی چڑچڑا اور بدمزاج ہو جاتا ہے۔
یوں تو اللّہ تعالیٰ نے جہاں جوڑ لکھا ہے وہاں ہی شادی ہوتی ہے، مگر عجیب وغریب وجوہات جو انکار کا سبب بنتی ہیں ان سے لڑکے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے رشتے کرتے وقت صرف لڑکیوں کا ہی نہیں بلکہ لڑکوں کے دلوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ کیوں کہ مرد تو رو بھی نہیں سکتے۔
بیٹا ہو یا بیٹی، داماد ہو یا بہو، ہر دو صورتوں میں فریقین کے جذبات کا خیال رکھنا ازخد ضروری ہے۔