مجھے امّاں نہیں اچھی لگتی تھیں
چھوٹی قمیضوں کا رواج ہو تو میری لمبی لمبی قمیصیں سلواتیں ۔ اور جب لمبی قمیصوں کا دور آیا تو انھوں نے لمبی قمیصوں کو لیس لگواکر گھٹنوں تک کروا دیا
اچھے سے اچھے کپڑوں کا ستیاناس کر دیتی تھیں ۔ کسی فنکشن میں جانا ہو تو لاکھ منتیں کر لو کبھی لپ اسٹک تک لگانے نہیں دی ۔ کہتی تھیں جب دلہن بنو گی تو روپ نہیں آئے گا ۔ اسکول سے نکل کر کالج آئی تو کَس کر حجاب اڑھا دیاگیا۔
یونیورسٹی میں لڑکیاں بال کھولے اتنی پیاری لگتیں اور ایک میں... ابھی سے بوڑھی لگنے لگی تھی ۔ امّاں کَس کَس کر میری دو چوٹیاں بناتی تھیں ۔بارہا کہا امّاں ایک چٹیا بنانے دیں ۔ دو کا رواج نہیں اور اسکارف کے اندر دو چوٹیوں سے میرا چہرہ اچھا نہیں لگتا ہے ۔ لیکن امّاں کہاں ماننے والیں
کالج سے بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو کر یونیورسٹی پہنچی... سوچا اب میں بڑی ہو گئی ہوں یہاں کچھ من مانی کروں گی ۔ لیکن امّاں نے یہاں بھی میری جان نہیں بخشی... حد ہی کر دیتی تھیں رات کو میرے سر میں تیل کی پوری بوتل انڈیل دیتیں, کہتیں کہ پڑھائی کی محنت سے بال نہ جھڑ جائیں ۔
مجھے ان سے سخت چڑ ہونے لگی تھی ۔ مجھے امّاں بالکل اچھی نہیں لگتی تھیں ۔
یہ بھی پڑھیں
یونیورسٹی میں اتنے اچھے اچھے اونچے اسٹینڈرڈ کے لڑکے لڑکیاں نظر آتے تھے بہت سے لڑکے اور لڑکیوں کی جوڑیاں بھی بنی ہوئی تھیں... مگر میری طرف مجال ہے کہ کوئی متوجہ بھی ہوجائے . کیوں کہ میرے سر سےکڑوے تیل کی بھبھک آتی تھی
نجانے اس ایک لڑکے میں کیا بات تھی کہ اس کے اردگرد لڑکیوں کا جمّ غفیر رہتا تھا میری بھی یہ خواہش ہونے لگی کہ میں اس کی دوست بن جاؤں مگر وہ تو میری طرف دیکھتا بھی نہیں تھا
یہ بھی پڑھیں
اس وقت میری ایک سہیلی نے یہ کہا کہ دیکھو یاد رکھنا تم جیسی ہو اسی طرح کے لوگ تمھیں ملیں گے‼میں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا اور پوری طرح پڑھائی میں مصروف ہو گئی
وقت گزرتا گیا اور پڑھائی مکمل ہوئی رزلٹ آگیا یونیورسٹی میں میرے علاوہ ایک اور لڑکے نے ٹاپ کیا تھا جسے آج سے پہلے میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا
میری سہیلی کا کہنا سچ ثابت ہوااور میری شادی میرے جیسے اسی ٹاپر لڑکے سے ہو گئی جس کو یونیورسٹی میں کوئی جانتا بھی نہیں تھا
اب ہم دونوں کی ایک پیاری سی بیٹی ہے. میری جو خواہشات میرے دل میں رہ گئی تھیں میں ان کو اپنی بیٹی کو سجا سنوار کر پورا کر رہی تھی... جب لوگ اسے ستائشی نگاہوں سے دیکھتے، میں باغ باغ ہو جاتی
اب وہ بڑی ہو رہی تھی اس کی چال ڈھال میں مجھے ادائیں نظر آنے لگیں وہ جہاں سے گزرتی لوگ اسے مڑ مڑ کر دیکھتے، پَر مجھے اب یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا بلکہ سچ پوچھیں تو بہت برا لگتا ہے میں نہیں چاہتی کہ اسے کوئی بھی ایسی نگاہوں سے دیکھے
آج مجھے شدّت سے امّاں یاد آرہی ہیں... اور مجھے امّاں کی وہ پابندیاں بھی یاد آرہی ہیں جن کی وجہ سے وہ مجھے بری لگا کرتی تھیں... آج مجھے ان کی اپنے اوپر لگائی ہوئی پابندیوں پر فخر محسوس ہو رہا ہے...اب امّاں مجھے بہت اچھی لگ رہی ہیں
یہ بھی پڑھیں
قبرستان میں ایک لڑکی جو قریب 22، 24 برس کی تھی
ایک قبر کو قلاوے میں لیے ہوئے تھی اسکے الفاظوں پہ اسکی ہچکیاں ہاوی تھی
""بابا! جب سے آپ گے ہو نا کسی نے میرے سر پہ ہاتھ رکھ کر یہ نہیں کہا بیٹا کچھ چاہیے
میں نے اپنی بیٹی کو ابھی اپنے پاس بلایا ہے اسے زندگی کا یہی راز سمجھانے کے لیے کہ بعض معاملات میں ماؤں کی طرف سے پابندیاں بچیوں کے وقار اور عزت میں اضافہ کرتی ہیں. اور انھیں سرخرو کرتی ہیں
🇵🇰 اپنے بچوں کی اچھی تربیت والدین کی زمہ داری ہے
اگر ماں کی تربیت اچھی ہو تو بچوں کا کھیل بھی عبادت بن جاتا ہے