استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا || Not performing Hajj despite being able to afford it

GR SONS


استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا 




جب کسی آدمی کے پاس حج کرنے کے لیے زاد راہ موجود ہوتو کیا اس پر حج فرض ہو جاتا ہے اور اگر رقم موجود ہونے کے باوجود حج نہ کرے تو گناہگار ہو گا یا نہیں؟

 

 حج دین اسلام کا ایک رکن ہے اور صاحب استطاعت پر فرض ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ عَنِ العـٰلَمينَ ... سورةآل عمران

"اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو بیت اللہ تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی کا انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔"

 

1۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"بُني الإسلام على خمس: شهادة أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ"

(بخاری کتاب الایمان باب دعاء کم ایمانکم (8)مسلم کتاب الایمان (45۔21)مشکوۃ (4))

"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سواکوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے بندے اور رسول ہیں۔اور نماز قائم کرنا۔ زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کا روزہ رکھنا۔"

 

2۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی حدیث جبرئیل  علیہ السلام میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسلام کی توضیح کرتے ہوئے فرمایا:

"الإسْلامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُقِيمَ الصَّلاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً"

(صحیح مسلم کتاب الایمان (1۔8)مشکوۃ (2))

"اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔اور نماز قائم کر۔ زکوۃ ادا"کر۔رمضان کے روزے رکھ اور اگر بیت اللہ کی طرف جانے کی طاقت ہے۔ تو حج کر۔

 

3۔ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا:

"(يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ الْحَجَّ فَحُجُّوا فَقَالَ رَجُلٌ أَكُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ) "

(مسلم کتاب الحج(1337)باب فرض الحج مرۃ فی العمر)

"اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے پس تم حج کرو ۔ ایک آدمی نے کہا : کیا ہر سال اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خاموش ہو گئے حتیٰ کہ اس نے یہ کلمہ تین بار کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال واجب ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔"

 

ان آیات و احادیث صریحہ سے معلوم ہوا کہ صاحب استطاعت پر عمر میں ایک بار حج فرض ہے۔ امام ابن قدامہ المقدسی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"وقد أجمعت الأمة على وجوب الحج على المستطيع مرة واحدة "(لمغنی 5/6)

"امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ صاحب استطاعت پر عمر میں ایک مرتبہ حج واجب ہے۔

 

"إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً "کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے "لزادوالراحلہ "یعنی سفر اور سواری مراد ہے۔"(ابن کثیر 1/414)

اس سے معلوم ہوا کہ جس آدمی کے پاس سامان سفر اور سواری کا انتظام موجود ہو اس پر حج فرض ہے اور جو آدمی طاقت کے باوجود حج نہ کرے وہ ایک فرض کا تارک ہے

 

عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"مَنْ أَطَاقَ الْحَجَّ فَلَمْ يَحُجَّ، فَسَوَاءٌ عَلَيْهِ يَهُودِيًّا مَاتَ أَوْ نَصْرَانِيًّا" (تفسیر ابن کثیر 1/415)

"جو آدمی حج کی طاقت رکھنے کے با وجود حج نہ کرے برابر ہے اس پر خواہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔" (ابن ابی شیبہ)



 
 


 ”
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔“   (رواہ الترمذی)

 

حج کی فرضیت کا حکم راحج قول کے مطابق 9ھ میں آیا اور اگلے سال10 ھ میں اپنی وفات سے صرف تین ماہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو ”حجۃ الوداع“ کے نام سے مشہور ہے اور اس حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ترجمہ: آج میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کرچکااور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کردیا۔(المائدہ:30)

 

اس آیت میں تکمیل دین کے ساتھ ساتھ ایک لطیف اشارہ ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے۔ اگر بندہ کو مخلصانہ حج نصیب ہو جائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں ”حج مبرور“ کہتے ہیں تو گویا اس شخص کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو گیا۔

 

لیکن جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے اس کے لیے آغاز میں مذکور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔

 

 مولانا محمد منظور نعمانی صاحبؒ معارف الحدیث میں تحریر فرماتے ہیں کہ

 

حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بجائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی خصوصیت تھی البتہ مشرکین عرب حج کیا کرتے تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے ترک نماز کو مشرکین کا عمل بتایا گیا۔

 

باقی رہا یہ کہ حج کس پر فرض ہوتا ہے تو اس بار ے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کافی راہنمائی کر رہی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مایو جب الحج (کیا چیز حج کو واجب کر دیتی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الزادو الراحلہ (سامان سفر اور سواری)۔  (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

 

قرآن مجید میں فرضیت حج کی شرط کے طور پر ”من استطاع الیہ سبیلا“ فرمایا گیا ہے یعنی حج ان لوگوں پر فرض ہے جو سفر کر کے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اس آیت میں جو اجمال ہے غالباً سوال کرنے والے صحابی نے اس کی وضاحت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ

 

ایک تو سواری کا انتظام جس پر مکہ معظمہ تک سفر کیا جا سکے اور اس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اتنا سرمایہ ہو جو اس زمانہ سفر کے گزارنے کے لیے کافی ہو۔

فقہائے کرام نے ان اخراجات میں ان لوگوں کے اخراجات کو بھی شامل کیا ہے جن کی کفالت حج پر جانے والے کے ذمہ ہو...۔

 

جب کوئی شخص حج کر لے تو اس کے لیے بڑی بشارتیں ہیں‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے حج کیا اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔  (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

 

جو شخص اخلاص کے ساتھ حج یا عمرہ کرتا ہے وہ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں غوطہ لگاتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ گناہوں کے گندے اثرات سے پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوتا ہے کہ فقر و محتاجی اور پریشان حالی سے اس کو نجات مل جاتی ہے، خوشحالی اور اطمینان قلب کی دولت نصیب ہو جاتی ہے، اور ”حج مبرور“ کے صلہ میں جنت کا عطا ہونا اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک

 عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کفارہ ہو جاتا ہے ان کے درمیان گناہوں کا ”والحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ“ اور حج مبرور یعنی نیکی سمجھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ حج کرنے کا بدلہ تو بس جنت ہی ہے۔“ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

 

 

لہٰذا صاحب استطاعت آدمی بیت اللہ کا حج ضرور کرے اور کوشش کرے کہ استطاعت کی موجودگی میں جلد حج کرے کیونکہ موت کا علم کسی آدمی کو نہیں۔ اس لیے اپنی زندگی میں اس فریضہ سے سبکدوش ہو جائے۔