دینی امور اور اجرت || Religious affairs and wages

GR SONS


دینی امور اور اجرت




 ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیؐ کے کچھ صحابہؓ سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنالیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔

اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آکر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔

چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو ! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پا س کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟

ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد للہ رب العالمین پڑھ پڑھ کر دم کیا۔


یہ بھی پڑھیں

گھروں میں برکت پیدا کرنے کے چند رہنما اصول


ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کردی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کرلو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ سے اس کا ذکر کر لیں۔

اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔

( صحیح بخاری : 2276 )

حدیث بالا صاف بتا رہی ہے کہ یہ دینی امور پر اجرت لینے کا معاملہ سرے سے نہیں۔ اس حدیث سے دینی امور پر اجرت کا استدلال کرنے والے محض حماقت و جہالت کا شکار ہیں۔
دراصل مال و زرّ کی ہوسّ میں دین اور دینداری میں ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ دین سے ان کا تعلق محض پیشہ وارانہ ہی رہ گیا۔
ابو سعید خدری ؓ کی حدیث میں جو بیان کیا گیا ہے وہ ایک خاص الخاص واقعہ ہے۔ اُس زمانے میں جب ہوٹل اور ریستوران کا رواج نہیں تھا اور قبیلہ والوں نے ضابطہ اخلاق اور معروف رواج کے برعکس ضیافت کرنے سے انکار کردیا تو اُس صورتحال میں اِس کے سوا اور کیا چارہ تھا کہ اُن سے حقِ ضیافت کسی بھی طرح وصول کر لیا جاتا۔
یہ تو اضطراری حالات کا تقاضا تھا اور حالت اضطرار میں ایسا قدم اُٹھانے کی اجازت ہے۔

حقِ ضیافت وصول کر لینے سے متعلق نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا ارشاد گرامی بھی ملاحظہ فرمالیجئے:
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! آپ ہمیں ( تبلیغ وغیرہ کے لئے ) بھیجتے ہیں اور راستے میں ہم بعض قبیلوں کے گاؤں میں قیام کرتے ہیں لیکن وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے ، رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کیا اشارہ ہے ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہم سے فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کے پاس جا کر اترو اور وہ جیسا دستور ہے مہمانی کے طور پرتم کو کچھ دیں تو اسے منظور کر لو اگر نہ دیں تو مہمانی کا حق قاعدے کے موافق ان سے وصول کر لو۔
{ (صحیح بخاری:6137)؛ (صحیح مسلم:4516)؛ ابودائود؛ ابن ماجہ؛ مسند احمد }
کیا فنِ دینداری کے ان ماہرین نے قران کا مطالعہ نہیں کیا؟
موسیٰ علیہ السلام خضر علیہ السلام کے ساتھ ایک بستی میں پہنچے، اُس بستی کے لوگوں نے کہنے کے باوحود ان کے کھانے کا اہتمام نہ کیا۔ خضر علیہ السلام نے جب ان کی ایک دیوار کو جو گرنے والی تھی سیدھا کردیا تو، موسیٰ علیہ السلام نے فوراً ان سے کہا:
قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا
(ترجمہ) :
" اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اُجرت لے سکتے تھے"
(الکہف : 77)
اللّٰه کے برگزیدہ رسولؑ تو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ ظرفی میں خود ایک نمونہ ہوتے ہیں اور معمولی فروگذاشت پر انتقامی جذبہ اُن کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔ لیکن اُس دور میں جب کہ ہوٹلوں وغیرہ کا وجود نہ تھا، مہمان کی مہمان نوازی نہ کرنا ایک بری حق تلفی اور عظیم معاشرتی جرم تصور کیا جاتا تھا، اس لئے اضطراری حالت میں اپنا حق لینے کے جزبے سے ہی درج بالا الفاظ موسیٰ علیہ السلام کی زبان پر آئے۔
اسی طرح صحابی کے قبیلہ والوں سے حق ضیافت اسی وقت وصول کیا تھا، جب انہوں نے قاعدے کے مطابق ضیافت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ابو سعید خدری ؓ کی روایت میں اس کی صراحت موجود ہے جب کہ عقبہ بن عامر ؓ کی پیش کردہ حدیث میں اس صورتحال میں حق ضیافت وصول کرنے کا جواز موجود ہے۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ابو سعید خدریؓ کی زیرِ بحث روایت سے تمام ہی لوگ دلیل لاتے ہیں۔ نماز پڑھانے والے نماز پڑھانے کی، قران کی تعلیم دینے والے قران کی تعلیم کی، فتویٰ دینے والے فتویٰ دینے کی، حدیث اور فقہ کی تعلیم دینے والے حدیث و فقہ پڑھانے کی اجرت وصول کرنے کے جواز کے لئے اسی حدیث کو پیش کرتے ہیں۔
پہلی بات جو اوپر گزری کہ یہ اضطراری حالات کا خاص معاملہ تھا اس سے عمو پر دلیل نہیں لائی جاسکتی۔ دوسری یہ کہ یہ دینی امور پر اجرت کا معاملہ تھا ہی نہیں۔
اجرت تو خدمت انجام دینے والے کا حق ہوتی ہے جب کہ اس واقعہ میں تو "راق" ( دم کرنے والے ) نے دم کیا مگر اس صلے میں ملنے والے بھیڑوں یا بکریوں کے ریوڑ کو قافلے کے تمام لوگوں میں تقسیم کیا گیا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کی نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے اس میں اپنا حصہ بھی لگانے کو کہا، حالانکہ آپؐ وہاں موجود ہی نہ تھے بلکہ صحابہ کرامؓ نے مدینہ واپس آکر آپؐ سے
اس معاملے کا ذکر کیا تو اس وقت آپؐ نے اس میں حصہ لگانے کو کہا تھا۔

بھلا کیا اجر کی اجرت بھی تقسیم ہوا کرتی ہے؟
اور اجرت میں کسی اور کا بھی حصہ بنتا ہے جو معاملے سے قطعاً لاتعلق رہا ہو ؟

دین داری کو دکان داری بنانے والوں سے کوئی اگر پوچھے آپ جو دینی امور پر اجرت وصول کرتے ہیں تو کیا آپ بھی اس کو لوگوں میں تقسیم کردیتے ہیں؟
آج تک ریکارڈ پر کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ دینی امور پر اجرت وصول کرنے والوں نے اپنی تنخواہوں میں کسی دوسرے کو حصہ دار بنایا ہو یا اپنی تنخواہ لوگوں میں تقسیم کردی ہو۔ تو پھر مان لینا چاہیے کہ دینی امور پر اجرت لینے والے اس حدیث پر خود ہی عمل کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں اس حدیث سے دلیل لانا چہ معنی دارد؟

یہ بھی پڑھیں

دین کے بیوپاریوں کو کب گوارا ہوسکتا ہے کہ حدیث کے صحیح مطلب کو واضح کیا جائے، حدیث کی صحیح تشریح و توضیح سےتو ان دکانداری چوپٹ ہوجاتی ہے۔ اس کو بچانے کے لیے بہت ہاتھ پیر مارے جاتے ہیں۔ تب ہی تو ابو سعید خدری ؓ کی حدیث کے صحیح معنی و مفہوم مسترد کرنے کیلئے بخاری کی عبداللّه بن عباس ؓ سے مروی مندرجہ ذیل روایت پیش کرکے کہتے ہیں کہ دینی امور کے اجرت کے جواز کے لئے یہ حدیث بلکل واضح ہے اس میں اضطراری حالت یا حق ضیافت کے معاملے کا اشارہ تک نہیں ہے۔

ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں بچھو کا کاٹا ہوا ( لدیغ یا سلیم راوی کو ان دونوں الفاظ کے متعلق شبہ تھا ) ایک شخص تھا ۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے ۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہے چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورۃ الفاتحہ پڑھی ، اس سے وہ اچھا ہو گیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لے لی ۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی ہے ۔ آپ نے فرمایا جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے ۔
(صحیح بخاری : 5737)
شکم پروری کے دفاع میں ان کی بے لگام زبان اور بے مہار قلم مسلمہ علمی اصولوں سے بے پرواہ ہوکر اس طرح کی ہرزہ سرائی نہ کرے تو کیا کرے۔ دراصل سچ اور حق ان کے حلق سے نیچے اترتا ہی نہیں۔ یہ ہرزہ سرائی کوئی دینی خدمت نہیں محض دکانداری کے کھلے دروازے کو کھلا رکھنے کی ناروا اور احمقانہ کوشش ہے۔ سطور بالا میں ابو سعید خدری ؓ کی حدیث کی صحیح تشریح پیش کی گئی ہے۔

ابو سعید خدری ؓ کی حدیث اور ابن عباس ؓ کی حدیث ایک ہی واقعہ کے متعلق ہے۔ وہ کوئی دو الگ واقعات نہیں۔ ابو سعید خدریؓ کی حدیث میں پورا واقع مع جزئیات ہوا ہے جبکہ ابن عباسؓ کی روایت میں بھی اسی واقعہ کو بیان کیا گیا ہے مگر اس میں تمام باتیں بیان نہیں ہوئی ہیں۔ ابن عباس کی حدیث مقابلے میں مجمل ہے۔ اور جب کسی واقعہ کو تمام بیان کرنا ہوتا ہے یا اس سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ کرنا ہوتا ہے تو اس واقعہ کے متعلق تمام صحیح مرویات کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔ جو باتیں ابن عباس کی حدیث میں نہیں تو کیا ہوا، ابو سعید خدری کی حدیث میں تو ہیں۔ یہ تو بڑی جہالت و حماقت ہی ہے کہ ابو سعید خدری کی روایت کے مقابلے میں ابن عباس کی حدیث کو بلکل واضح قرار دیا جائے۔ جبکہ معلوم ہے کہ ابو سعید خدری اور ابن عباس کی احادیث ایک ہی واقعہ کو بیان کر رہی ہیں۔ ابو سعید خدری اور ابن عباس کی بیان کردہ دونوں احادیث ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں، یہ خود حدیثوں سے مترشح ہے اور ابن حجر عفسلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں:
" ان حدیث ابن عباسؓ و حدیث ابی سعید فی قصته واحدة۔ " ( فتح الباری؛ کتاب الطب ) ۔
(ترجمہ): ابن عباسؓ اور ابو سعید خدریؓ کی احادیث ایک ہی قصہ کے متعلق ہیں۔
دین کے بیوپاریوں کے نزدیک فن حدیث کے حوالے سے مستند و مسلم شخصیت نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ ابن عباس اور ابو سعید خدری کی احادیث ایک ہی واقعہ کے متعلق ہیں۔ ابن عباس کی حدیث مختصر ہے اور ابو سعید کی حدیث مطلول، ظاہری بات ہے کہ مطلول مختصر کی وضاحت ہوتی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ابو سعید خدری تو اس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے۔ اور ابن عباس صحابہ کرام کی اس جماعت میں شامل نہیں تھے۔ جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
ان معروضات سے واضح ہوا کہ دین کے پیشہ ور مخالفت حق اور شکم پروری کے دفاع میں ہوش و حواس بھی کھو بیٹھتے ہیں ورنہ حدیث سے ذرا بھی واقفیت رکھنے والا جانتا یے کہ ایک واقعہ سے متعلق جب بہت سی روایات ہوں، مجمل بھی اور مفر بھی، تو ان کو باہم جمع کرکے حدیث کا مطلب نکالا جاتا ہے۔ مفسر سے آنکھیں بند کرکے مکصّر پر استدلال کی بنیاد رکھنا تو حدیث اور علم حدیث سے بیگانگی بلکہ دشمنی کے مترادف ہے۔

اب یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آخر ابن عباس کی حدیث پر ہی اصرار کیوں ہے جسے دینی امور پر اجرت کے معاملے میں بلکل واضح قرار دیا جاتا ہے؟
وجہ دراصل یہ ہے کہ ابنِ عباس کی روایت میں واقعہ کے بعض پہلو نمایاں نہیں ہیں اور اس روایت کے آخر میں " ان حق ما اخذتم علیہ اجراً کتٰب اللہ " کے الفاظ آئے ہیں جن سے یہ پیشہ ور لوگ دین کے بیوپار کو جائز ٹھہرانے کا ناجائز جواز اخذ کرتے ہیں جس کی حقیقت آگے آرہی ہے۔

اس حدیث سے دینی امور پر اجرت کے جواز کے لئے استدلال کرنے والوں نے کیا اس واقعے میں موجود صحابہ کرام ؓ کے طرز عمل پر بھی غور کیا ہے؟
صحابہ نے تو کہا تھا کہ ہم اس وقت تک نہیں لیں گے جب تک اس کے متعلق نبی اکرم صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے دریافت نہ کرلیں اور ابن عباسؓ کی روایت میں فکر ھوزا کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی انہوں نے اس کو لینے میں کراہت محسوس کی۔ یہ تھا صحابہ کرام کا طرز عمل کیا ان لوگوں کو یہ بلکل نظر نہیں آتا؟
اس پہلو پر ان پیٹ کے پجاریوں نے ذرا بھی غور نہیں کیا کہ صحابہ کرام نے کراہت کیوں محسوس کی؟

بعض چابک دست تو ابن عباسؓ کی حدیث کے صرف آخری الفاظ پیش کرتے ہیں۔ یعنی کتاب اللّه پر اجر لینا سب سے بہتر ہے۔ یہاں اس سے مراد دین فروشی کا جواز نہیں ہے۔ اصول اور انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان الفاظ سے دین پر اجرت کا جواز کشید کرنے سے باز آجائیں کیونکہ یہ الفاظ درج بالا سطور میں پیش کردہ واقعہ سے متعلق ہیں اور جس واقعہ سے یہ متعلق ہیں اس کے ساتھ پیوست رکھتے ہوئے اس کا مطلب اخذ کرنا چاہیے۔ کسی بھی عبارت کو سیاق و سباق سے جدا کرکے کوئی بھی معنی پہنائے جاسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ سیاق و سباق سے جدا کر کے جو معنی لئے جائیں گے وہ صحیح ہونے سے رہے. حدیث کے ان الفاظ سے تعلیم القران پر اجرت کے لئے استدلال کرنے والوں کے متعلق بدر الدین عینی اپنی تصنیف عمدة القادری میں تحریر کرتے ہیں :
"من له ذوق من معانی الا حدیث لا یتلفظ ھذا الکلام الذی لیس له معنی "
( عمدة القادری؛ جز ٢١ ؛ ص ٢٦۴ )
( ترجمہ) : جو حدیث کے معنی کا ذوق رکھتا ہے وہ اس قسم کی بات نہ کرے گا جو اس کے معنی نہیں ہیں ( یعنی دینی امور پر اجرت کا استدلال)
ثابت ہوا کہ اوپر کی سطور میں پیش کئے گئے واقعہ سے ہی متعلق ہیں اور اس واقعہ میں ضیافت سے انکار کی اضطراری کیفیت میں دم کے ذریعہ حق ضیافت وصول کرنے کا ذکر ہے۔ جس کے لئے اللّه تعالیٰ نے اسباب پیدا کردئے۔ نماز پڑھانے، قران و حدیث کی تعلیم دینے اور دیگر دینی امور پر اجرت کا تو اس میں سرے سے ذکر ہی نہیں تو پھر ان تمام چیزوں پر اس سے دلیل لانا احمقانہ کوشش ہے۔