یہ میری بہو بنے گی || She will became my daughter-in-law

GR SONS


یہ میری بہو بنے گی



 

ثانیہ پیدا ہوئی تو اس کی خالہ نے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ یہ میری بہو بنے گی۔ تھوڑی بڑی ہوئی تو انگوٹھی بھی خالہ نے پہنا دی اور عیدوں پر جوڑے بھی خالہ کے گھر سے آنے لگے۔ بچپن سے جوانی تک اس کا نام ہر جگہ ارسل کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔ اور اس نے اسے خوش دلی سے قبول کیا تھا ۔ شادی کی عمر ہوئی تو ارسل نے کہہ دیا کہ میں ثانیہ سے شادی نہیں کرونگا۔ خالہ نے اپنی بہن سے آ کر معذرت کر لی کہ میرا بیٹا نہیں مان رہا۔ ثانیہ  کی ماں پہلے ناراض ہوئی لیکن بہن سے کب تک کٹ کے رہ سکتی تھی۔ لیکن ثانیہ کے دل پر کیا بیتی اور کیسے اس کے بچپن سے جوانی تک کے سپنے چکنا چور ہوئے اس کا اندازہ شاید کوئی نہ کر سکے۔ اس کا ہر ایک رشتے سے اعتبار ہی اٹھ گیا۔ دل ایسا چکنا چور ہوا کہ زندہ لاش نظر آنے لگی۔


یہ بھی پڑھیں

کون ڈاکٹر محمد حمید اللہ؟؟

 

بہت سے گھروں میں ایسی ہی کہانیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

جہاں ارسل رشتہ نہ توڑے وہاں ثانیہ یا اس کے گھر والے بھی توڑ دیتے ہیں لیکن اذیت دونوں صورتوں میں دوسرے فریق کو برابر ہوتی ہے۔

 

 ایک چیز جو ہمارے معاشرے میں والدین اور بزرگوں کو سمجھ نہیں آرہی وہ یہ کہ نہ وہ اپنی زندگی جیتے ہیں نہ بچوں کو ان کی زندگی جینے دیتے ہیں۔ جو خود ان کے اپنے خواب ہوتے وہ خود پورے کرنے کی بجائے اپنے بچوں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ ان کا رشتہ ان کی پسند سے نہیں ہوا تو اب اپنے بچوں کا رشتہ بچوں کی مرضی کی بجائے اپنی مرضی سے طے کر دیتے ہیں۔ حالانکہ جس کا رشتہ ہونا ہے سب سے پہلے اور سب سے اہم اس کی رائے ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی ڈاکٹر یا پائلٹ یا انجینئیر بننا چاہتا تھا ، نہیں بن سکا تو اب اپنے بچوں پر جتنی بھی سختی  کرنی پڑے اور جیسے بھی انھیں مجبور کرنا پڑے کرے گا۔ ایسے ہی خواہش اپنی بہن یا اپنے بھائی سے جڑے رہیں تو اپنے بچوں کے رشتے وہاں کر دیں گے چاہے بچے اس پر بالکل بھی راضی نہ ہوں۔ پھر یہ شکایت بھی کہ بچے نافرمان ہو گئے ہیں، ہماری بات نہیں مانتے۔


یہ بھی پڑھیں

نیتن یاہو اور اسرائیل


یہ بات سب سے پہلے آج کل کے والدین کے لیے ہے کہ اپنے فرائض اور حقوق کا صحیح تعین کیجیے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آپ کے فرائض کیا ہیں، پہلے وہ پورے کیجیے۔ 

پھر یہ دیکھیے کہ آپ کے حقوق کیا ہیں۔ کیا کوئی ایسا حق تو نہیں ہے جو آپ کا حق نہیں ہے لیکن آپ زبردستی اپنے بچوں سے وہ وصول کر رہے ہیں۔

 اس سے آپ کے لیے تو پریشانی ہوگی ہی لیکن اپنے بچوں کی بھی زندگی تباہ کر دیں گے۔ اس کا خمیازہ آپ کو، آپ کی اولاد کو اور ان کے ساتھ جڑے سب لوگوں کو بھگتنا ہو گا۔ معاشرے میں پھیلی چڑچڑے پن کی بڑی وجوہات میں سے ایک بزرگوں کے زبردستی کے فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ 

خدارا ہوش کے ناخن لیجیے۔ آپ اپنی زندگی جی چکے ۔ اب اپنی اولاد کو اپنی زندگی جینے دیجیے