نیاسال کس طرح منائیں؟
ہجری سال
کا آغاز محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو ہوتا ہے جبکہ عیسوی سال کی ابتدایکم جنوری
کوہوتی ہے۔ اسلامی تاریخ غُروبِ آفتاب کے وقت تبدیل ہوتی ہے اور عیسوی تاریخ نصف
شب یعنی رات12بجے۔
دنیا بھر
میں ایک غلط روایت فروغ پاچکی ہے وہ یہ کہ 31 دسمبرکی شب’’ نیو ائیر
نائٹ (منانے کے نام پر طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے،بالخصوص نوجوان تو
کچھ زیادہ ہی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، رقص وسُرُود کی ہوش رُبامحفلیں بڑے اہتمام
کے ساتھ سجائی جاتی ہیں،جہاںمَعَاذَاللہ شراب اورمختلف طرح کے نشوں
اورجُوئے کا انتظام ہوتا ہے ، رات کے 12 بجتے ہی کروڑوں روپے آتش بازی میں
جھونک دئیے جاتے ہیں ،ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے، منچلے نوجوان موٹر سائیکلوں سے
سائلنسر نکال کر، کاروں میں لگے ہوئے ڈیک پر کان پھاڑ آواز میں گانے چلا کر ٹولیوں
کی صورت میں سڑکوں پراُودَھم مچاتے اور لوگوں کا سکون برباد کرتے ہیں،کئی نوجوان
وَن ویلنگ کرتے ہوئے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
افسوس
!اس اُمّت کے کروڑوں روپے صِرف ایک رات میں ضائع ہوجاتے ہیں،خوشیاں منانے کے
نام پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرکے اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ
مزید بھاری کیا جاتا ہے ۔اس رات میں کئی لوگ زہریلی شراب، ہوائی فائرنگ،ایکسیڈنٹ
اور آگ میں جُھلس کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ہلاکتیں اورنقصانات ہرسال یکم جنوری
کو شائع ہونے والی خبروں میں نیوائیرنائٹ میں ہونے والے نقصانات کی جھلکیاں بھی
شامل ہوتی ہیں ،بطور نمونہ کچھ خبریں ملاحظہ ہوں:
2013ء کی
آمد پر جیسے ہی گھڑیوں کی سوئیاں 12بجے پر پہنچیں تو کراچی شہر جدید ترین ہتھیاروں
کی فائرنگ سے گُونج اُٹھا جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور شِیرخوار بچی
سمیت متعدد افرادزخمی ہوگئے۔
پیراگویہ
میں 2004ء کے دوران آتش بازی کے باعث 400افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
یکم جنوری 2005ء میں ارجنٹائن کے دارالحکومت
بیونس آئرس کے ایک نائٹ کلب میں نئے سال کی خوشی میں موسیقی کے پروگرام کے دوران
آتش بازی کے نتیجے میں آگ لگنے کی وجہ سے کم از کم 300افراد جل کر ہلاک اور 500سے
زائد شدید زخمی ہوگئے ۔
نئے سال
کی آمد کے ساتھ ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں اندھا دُھند ہوائی فائرنگ کی گئی،اس
دوران15افراد زخمی ہوگئے۔
واضح رہے
کہ مسلمانوں کے لیے ہجری سال مقرر ہے، جو محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اور اسی سے
ہمارے تشخص کا اظہار ہوتا ہے، جبکہ عیسوی سال کی آمد پر غیر مسلم خوشیاں مناتے
ہیں، جن کی مشابہت سے ہمیں منع کیا گیا ہے، چنانچہ جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
"جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے"(سنن
ابوداوٴد، حدیث نمبر: 4031) لہذا اس موقع پر ہیپی نیو ایئر کہنے سے اجتناب کرنا
چاہیے۔
اس موقع پر ہم مسلمانوں کو دو کام خصوصی طور پر کرنے چاہیئیں:(۱) ماضی کا احتساب (۲)
آگے کا لائحہ عمل۔ ہر آنے والا نیا سال خوشی کے بجائے ایمان والے شخص کو بے چین
کردیتا ہے، کیونکہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی
ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے، وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ
زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے، آخرت کے لیے کچھ تیاری کر نے کی تمنا اس
کو بے قرار کردیتی ہے، اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے، اس لیے مسلمانوں
کےلیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا موقع نہیں، بلکہ گزرتے وقت کی قدر کرتے
ہوئےآنےوالےلمحاتِ زندگی کے صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے۔
اب رہایہ
سُوال کہ یہ سب کچھ نہ کریں تو ہم نیاسال کس طرح منائیں؟؟؟
کسی تاریخی مذہبی یا قومی ا ہم اقعہ کی وجہ سے اس دن کو بطور یادگار
منانا اسلام میں نہیں ہے، حضرت امیر ا لموٴمنین عمر بن الخطاب نے یہودیوں سے کہا
کہ اگر کسی دن کو بطور یادگار منانے کا کوئی جواز یا اس میں کوئی عمدگی ہوتی تو ہم
اس دن کو بطور یادگار مناتے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر سب سے بڑا انعام
تکمیل دین اور اتمام نعمت کا فرمایا اور قرآن میں اس انعام کا ذکر
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت
لکم الاسلام دینا
کی آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔ جب اتنے بڑے
دینی اور روحانی انعام پر بطور یادگار اسے منانے کا حکم نہیں ہوا جو دوسرے ا
نعامات پر یادگار منانے کی اجازت کیسے ہوگی۔ انعام خواہ دینی ہو یا دنیوی قومی ہو
یا انفرادی بس اسے فضل خداوندی سمجھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے اس کے لیے
اجتماع کی بھی ضرورت نہیں نہ ہی پارٹی کرنے کی، کہ یہ سب غیروں کا طریقہ اور نقالی
ہے، نئے سال کے ذریعہ ہمیں مزید اعمال صالحہ کرنے کا موقعہ ملا اس پر اللہ کا شکر
ادا کیا جائے اور اپنے سابقہ اعمال کا جائزہ لے کر برے اعمال سے توبہ اور اچھے
اعمال میں اضافہ کی کوشش کی جائے۔
جی آر سنز