ٹکٹ گھر کلرک اور پلیٹ فارم پولیس والا || Ticket house clerk and platform policeman

GR SONS


حیدرآباد سے کراچی سفر کر رہا ہوں۔ 



ابھی جب اسٹیشن پر پہنچا تو ٹکٹ گھر پہ کوئی رش نہیں تھا۔ مجھ سے پہلے 2 لوگ مایوسی کے عالم میں واپس لوٹ رہے تھے۔ پوچھنے پر بنا جواب دئے پلیٹ فارم کی طرف چلے گئے۔ میں سمجھا ٹکٹ نہیں مل رہے۔

 پریشان ہو گیا کہ نہ جانے کیا معاملہ ہوگیا ہو۔ بہرحال ٹکٹ گھر سے 

Pak Business Express 

کا ٹکٹ طلب کیا۔ کلرک نے بڑی حقارت سے کہا ایک ہزار پچاس۔۔! میں حیران ہوا کہ میں نے تو اسے بڑی عزت سے مخاطب کیا تھا اسے کیا ہوا؟؟ میرے پاس زیادہ وقت نہیں تھا اس لیے بنا توجہ دئیے پلیٹ فارم کی جانب تیزی سے بڑھنے لگا سوچ رہا تھا کہ سیٹ آسانی سے مل جائے گی کیونکہ ٹکٹ گھر خالی تھا۔ اسی دوران ایک پولیس والے سے پوچھا کہ کس پلیٹ فارم پہ مطلوبہ ٹرین لگنی ہے تو وہ غصے سے بولا کہ ابھی اعلان ہوجائے گا۔ میں مزید حیران ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ تحیر زدہ سا ایک مسافر سے پوچھا تو اس نے کہا پلیٹ فارم نمبر 2 یا تین پر پاک بزنس آئیگی۔ شکریہ ادا کر کے پلیٹ فارم پر اترا تو شدید رش دیکھ کر مزید حیران ہوا کہ یہ کیا سین ہے۔ 


یہ بھی پڑھیں

کووڈ 19 پھر سے جاگ اٹھا

 ٹکٹ گھر پہ کوئی نھیں اور پلیٹ فارم پہ شدید رش۔۔۔ بڑی مشکل سے ٹرین پہ سوار ہوا تو دیکھا وہی بد اخلاق پولیس والا بڑی ہی شائستگی سے پہلے سے سوار لوگوں سے ایک فیملی کے لئے جگہ مانگ رہا تھا میں مزید حیران کہ میں نے ایسا کیا جرم کردیا کہ اتنا خوش اخلاق پولیس والا مجھ سی اتنا روڈ تھا 

 اور ٹکٹ گھر والے کا رویہ الگ پریشان کن۔۔۔۔

میں پورا راستہ حیران ہی رہتا اگر ٹکٹ چیکر نہ آتا کیونکہ اس نے مجھ سے اور مزید ایک دو لوگوں سے صرف ٹکٹ طلب کئے اور باقی اتنے سارے لوگ جو حیدرآباد سے سوار ہوئے تھے ان میں سے کسی سے بھی ٹکٹ طلب نہ کیا حتی کہ اس فیملی سے بھی نہین جنکے لئے پولیس والا جگہ طلب کر رہا تھا۔ تب مجھ پہ یہ آشکار ہوا کہ زیادہ تر لوگ حیدرآباد سے بنا ٹکٹ لئے سوار ہو ئے تھے اور ٹکٹ چیکر کے ساتھ آیا پولیس والا انکی نشاندہی کر رہا تھا یعنی کہ وہ لوگ جنہوں نے ٹکٹ لئے تھے انہوں نے ریلوے انتظامیہ کے لوگوں کہ پیٹ پر لات ماری تھی اور جنہوں نے ٹکٹ نہیں لئے تھے انہوں نے 400 روپے مبلغ پولیس والوں کو دئیے تھے (یہ بات انہی مسافروں سے پتا چلی)جن میں یقینا تمام متعلقہ انتظامیہ کا حصہ تھا۔ 

تو جب آپ کسی کے پیٹ پہ لات مارو گے تو اس سے عزت کی توقع رکھنا بہت بڑی حماقت ہے۔۔۔

اور یہ وہ کرپشن ہے جسمیں شروع سے آخر تک غریب لوگ ملوث ہیں نہ کوئی وزیر ملوث ہے اور نہ کوئی سرمایہ دار۔ پھر کس منہ سے ہم صاحبان اختیار و اقتدار کو گالیاں دیتے ہیں۔ اور یہ میں اپنے بچپن سے دیکھتا آرہا ہوں۔ حیرانگی صرف یوں ہوئ کے لاسٹ ٹائم شاہ لطیف سے سفر کیا تھا جسمیں سب لوگ ٹکٹ لیکر سوار ہوئے تھے۔۔۔اور اسکی وجہ بھی سمجھ آگئی ہے۔

شاہ لطیف کے آپریشنز کو ایک پرائیوٹ کمپنی کے خوالے کر دیا۔

چنانچہ وہ 500 کرایہ لیکر بھی منافع کما رہے ہیں اور 

یہ 1050 کرایہ لیکر بھی خسارے میں ہیں۔


میری نظر میں خطاکار وہ تمام مسافر ہیں جو پولیس والے کو پیسے دے کر ٹرین میں سوار ہوئے ہیں۔ سوچیں، اگر تمام لوگ ایسی چوروں والی حرکات نہ کریں تو کونسا پیٹ اور کیسی لات۔ قصوروار عوام ہے۔ بلکل ویسے ہی جیسے دودھ والا دودھ میں ملاوٹ کرتے ہوئے حکمرانوں کو کرپٹ کہہ رہا ہوتا ہے۔