اللہ کے احکامات کو جب تک ہم سمجھیں گے نہیں تب تک ہماری زندگی میں تبدیلی نہیں آئے گی
پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک شکاری پرندے پکڑ کر بازار میں چند داموں کے عوض فروخت کرتا تها، ایک دن اس بازار میں ایک نیک دل آدمی کا گزر ہوا تو اس نے سوچا کہ ان آزاد پرندوں کو قید کرنا تو بہت بڑا گناہ ہے، اس لئے اس نے ان پرندوں کو آزاد کرنے کا سوچا اور شکاری سے سارے پرندے خرید لئے، لیکن آزاد کرنے سے پہلے اس نے سوچا کہ یہ شکاری تو پهر ان پرندوں کو پکڑ کر قید کر لے گا، اس لئے وہ سب پرندوں کو گهر لے گیا اور وہاں ان کو چند الفاظ سکهانے شروع کئے کہ ہم سیر کرنے باغ نہیں جائیں گے اگر باغ گئے تو شاخ پر نہیں بیٹھیں گے اور اگر شاخ پر بهی بیٹھ گئے تو جیسے ہی شکاری آئے گا ہم اڑ
جائیں گے
ایک عرصہ محنت کے بعد وہ نیک دل آدمی اپنی اس محنت میں کامیاب ہوا اور پرندے وہ بولی بولنے لگے، نیک دل آدمی بہت خوش ہوا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور اس نے ایک ایک کرکے سارے پرندے آزاد کر دیئے
اب ہوا یوں کہ دوسرے دن صبح سویرے جب شکاری باغ میں پرندیں پکڑنے گیا تو کیا دیکهتا ہے کہ پرندے شاخوں پر بیٹھے گنگنا رہے تهے کہ ہم سیر کرنے باغ نہیں جائیں گے اور اگر باغ گئے تو شاخ پر نہیں بیٹھیں گے اور اگر شاخ پر بیٹھ گئے تو جیسے ہی شکاری آئے گا ہم اڑ جائیں گے شکاری یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ اب تو ان پرندوں کی وہ منہ مانگی قیمت وصول کر سکے گا اور یوں اس
نے وہ پرندے پکڑ کر مہنگے داموں فروخت کر دئیے
یہ بھی پڑھیں
پرندوں نے تو صرف الفاظ رٹ لئے تهے ان کو کیا معلوم تها کہ باغ کیا چیز ہے؟
شاخ کیا ہوتی ہے؟
اور شکاری کس بلا کا نام ہوتا ہے؟
اور اڑنا کسے کہتے ہیں؟
ہم مسلمانوں کا بهی آ ج کل یہی حال ہے
قران کو ہم سمجهتے نہیں تو سینوں میں کیسے اترے گا؟
بس رٹے رٹائے الفاظ ہیں جسے ہم نماز میں پڑھتے ہیں برکت کے لیے پڑتے ہیں مصیبت کے آنے پر اور سفر پر جانے سے پہلے اور رمضان کے روزوں میں خالص ثواب کی نیت سے ہم ان رٹے ہوئے الفاظ کا ورد کرتے ہیں
ان پرندوں کی طرح ہمیں بهی قانون کے اس کتاب کی سمجھ ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہم سے کیا مطالبات کئے ہیں؟
کون سے احکامات دیئے ہیں اور کن چیزوں سے روکا ہے؟
کامیابی کے رموز کیا ہیں اور خسارے کا رستہ کون سا ہے؟
ہمارا دوست کون ہے اور ہمارا دشمن کون ہے؟
جب یہ حال ہوگا تو شکاری (باطل قوتیں) ہمیں دیکھ کر خوش بهی ہوگا اور اپنا غلام بهی بنائے گا