مرغا اسی ہزار کا || A chicken of eighty thousand

GR SONS

 
سونے کا انڈا نہیں 
بلکہ
سونے کا مرغا




ابھی تک تو قصے کہانیوں میں سونے کا انڈا ہی مشہور رہا ہے جو کہ جھوٹ پر مبنی ہے. آئیے میں آج آپ کو اصلی سونے کے مرغے کا واقعہ سناتا ہوں.

آج سے تین سال پہلے کی بات ہے کہ میں بہن کوہسپتال لے کر جا رہا تھا. راستے میں سڑک کے کنارے ایک گھر کے سامنے مرغا بیٹھا تھا. گاڑی دیکھ کر ایسے بھاگ آیا جیسے میں اس کا مقروض ہوں یا میں "مرغی" ہوں.

میں نے اس کو بچانے کی کوشش کی پر تب وہ ٹائر کے نیچھے آچکا تھا. فوراً اتر کر اس کو اٹھایا اور ابتدائی طبی امداد دی پر وہ میرے ہاتھوں میں ہی اس دار فانی سے کوچ کر گیا.

یہ بھی پڑھیں

اس کے مرنے کا دکھ تو تھا پر اس سے زیادہ اس بات کا دکھ تھا کہ لواحقین اس کے جسد خاکی کو شوربہ سے غسل نہ دے پائیں گے. بجائے کسی لپڑے میں پڑنے کے، میں نے وہاں سے جانے کا سوچا پر بہن کے دل میں انسانی ہمدردی بدرجہ اتم جاگ چکی تھی اور جانے نہیں دیا. کہ لواحقین کو اس کا تاوان ادا کیا جاوے.

میں مرغے کا لاش لے کر گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا. ایک جوانسال لڑکی پردہ کئے دروازے پر آکر بولتی ہے 'جی کون'؟
تعارف کی بجائے سیدھا مدعے پر آیا کہ میرے ہاتھ آپ کے گھر کے مرغے کے خون سے رنگے ہیں اور یہ کہ میں بے قصور ہوں.

میرا یہ کہنا تھا کہ یکدم حالات بدل گئے. گویا دنیا کا دورانیہ پورا ہو چکا ہے اور اسرافیل نے صور پھونک کر باقاعدہ قیامت کی منادی کر دی ہے.

لڑکی کے چہرے سے نقاب گر گیا. جو دروازے کے اوٹ میں کھڑی تھی، اب دروازے سے باہر کھڑی ہے. ایک چیخ بلند کی اور اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر چیخنے لگی، دادی دادی ارے امی باجی....... مجھے کچھ بولنے کا موقع ہی نہیں ملا.

دادی جو لکڑی کی مدد سے چل کر آرہی تھی، پاؤں کی مدد سے اڑ کر آئی. جوان مرغے کی لاش دیکھ کر دونوں ہاتھوں سے سینے پر دوختڑ رسید کرنے لگی، ہائے اللہ یہ کیا دکھایا. میرا صبح سے ہی من ٹھیک نہیں تھا، دل اداس اداس تھا. یہی دعا تھی کہ اللہ میری جھولی خیر سے بھر دے. اللہ یاللہ. گھر کی ساری خواتین گیٹ پر موجود زار و قطار رو رہی تھی.

میں فوراً گویا ہوا کہ 'جی میری غلطی نہیں. آپ کا مرغا خود بھاگ کر ٹائر کے نیچھے لیٹ گیا تھا. بہرحال آپ اس کی قیمت بتا دیں، میں نقصان بھرنے کو تیار ہوں ". میری بات ختم ہی ہوئی تھی کہ خاموشی چھا گئی. دادی گویا ہوئی، کتنے دو گے؟ میں نے کہا کہ ظاہری طور پر مرغا پندرہ سو کا ہے. آگے انصاف آپ لوگوں کے ہاتھ میں. میں نے بات ختم کی اور دادی کا بین دوبارہ شروع. بولی یہ میرے والدین کی نشانی میں سے ہوتا آرہا تھا، یہ اس نسل کا آخری بچا تھا. ہائے میری مرغیوں کا کیا بنے گا. میں نے کہا آپ براہ کرم قیمت بتائیں یا گھر میں اگر کوئی مرد ہے تو میں اس سے بات کروں.

اتنے میں ایک بچہ کھیتوں سے باپ کو لے آیا. مرغے کو دیکھ کر زمین پر بیٹھ گیا. میں نے اسے فوراً کہا کہ نقصان بھرنے کو تیار ہوں. وہ بولا اس نے کل ہی پچاس ہزار کی لڑائی جیتی تھی. کل رات ایک گاہک اسّی ہزار کا لے رہا تھا پر میں نے نہیں دیا. ابھی بھی ایک بندہ دیکھنے آرہا تھا. اب تم بتاؤ کتنا دے رہے، اور یہ بول کر چادر آنکھوں سے لگا لی. میں نے فوراً مرغ کی جانب دیکھا جو کسی بھی زاویے سے اصیل یا کوئی لڑنے والی نسل کا نہیں تھا.

اسی اثنا میں کافی مرد حضرات آس پاس جمع ہو گئے. ان کو دیکھا دیکھی روڈ سے گزرنے والی گاڑیاں کھڑی ہو جاتی. کچھ گاڑی سے لوگ اتر کر دیکھنے آجاتے کہ شاید کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے. یوں بیس منٹ میں مرغے کے گرد سینکڑوں لوگ جمع ہونا شروع ہوئے اور میں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ آیا. گاڑی میں بیٹھ کر پھر میری اور بہن کی لڑائی شروع ہوئی.