ماڈل بننے کا خواب || Dream of becoming a model

GR SONS


ماڈل بننے کا خواب 




مسلسل تین گھنٹے کی تگ و دو کے بعد بھی جب اس کے جسم کے ٹکڑے چننے کے باوجود مکمل طور پر اکٹھے نہ کیے جا سکے تو مزید سرچ اپریشن کو روک دیا گیا چونکہ لوگ تھک چکے تھے اور پھر یہاں وہ کسی کی بھی کوئی رشتہ دار تو نہ تھی

کسی کو کیا پرواہ تھی کہ اس کے جسم کے ٹکڑے دوسرے پرندے نوچ کھائیں یا پھر اوارہ کتے چبا جائیں یہاں پر تو جو کیا جا رہا تھا وہ بھی محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اور انسانیت کے ناطے کیا جا رہا تھا

کوئی محرم رشتہ ہوتا تو شاید اس کو مر جانے والی کا کوئی احساس ہوتا لیکن محرم رشتوں کو تو وہ کب کا جیتے جی مار آئی تھی یہ کہانی ہے عفت شہباز کی جو کہ بھاگووال کی رہنے والی تھی

وہ تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی اس کے والدین مزدور طبقہ سے تعلق رکھتے تھے بچیوں کو تعلیم و تربیت کے لیے انہوں نے سرکاری سکولوں میں داخل کروایا تھا لیکن آج کی نسل بہتر جانتی ہے کہ اساتذہ نے تعلیم و تربیت کا تو نظام ہی تباہ کر کے رکھ دیا ہے

حال ہی میں جو لوگ سرکاری سکولوں سے پڑھ کر فارغ ہوئے ہیں وہ اس بات کی تصدیق ضرور کریں گے کہ وہاں تربیت کے نام پر تو کچھ بھی نہیں دیا جاتا تعلیم کے نام پر محض نصابی کتابیں ہی پڑھائی جاتی ہیں

بلکہ پرائیویٹ سکولوں نے بھی اپنا کاروبار ہی چمکا رکھا ہے وہاں بھی تربیت کے نام پر کچھ نہیں سمجھایا جاتا شاید مدرسے واحد ایسی جگہوں جہاں اسلام کے مطابق رہن سہن اور زندگی گزارنے کے طریقے بتائے جاتے ہوں

لیکن آج کا انسان مذہبی تعلیم پر توجہ ہی کہاں دیتا ہے اس کو تو سائنسدان ڈاکٹر انجینیئر یا اس جیسے دوسرے لوگوں کی زندگی سے متاثر رہنا بہتر لگتا ہے

یہ بھی پڑھیں

عفت کو ماڈلنگ کو بہت زیادہ شوق تھا اور وہ بھی اسی سے متاثر تھی اس چیز کا شوق بھی اسے اپنی ہی ایک ٹیچر کو دیکھ کر پڑھا تھا اور ٹیچر کسی مضبوط فیملی سے تعلق رکھتی تھی سوچ میں انتہائی ایڈوانس تھی مختلف قسم کی ہالی وڈ اور بالی وڈ اداکاروں کو کاپی کرنا اس کی عادت تھی پورے سکول میں بھلے ہی اس سے کوئی اور متاثر ہو یا نہ ہو عفت شہباز اس سے ضرور متاثر تھی

مڈل تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب عفت کا رہن سہن چال ڈھال سب کچھ بدل گیا تو اس کے والدین نے اس کو سمجھانا شروع کر دیا لیکن اس نے والدین کی کسی بات کا کوئی نوٹس نہ لیا بلکہ اسے ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی یہاں تک کہ والدین نے اسکے ساتھ سختی برتنا شروع کر دی

والدین اس کے ساتھ سختی پیش أنے لگے مگر اس نے والدین کی سختی کو اپنے لیے بھلائی سمجھنے کی بجائے الٹا والدین سے نفرت کرنا شروع کر دی والدین نے اس کی تعلیم بند کروا دی لیکن افسوس کہ وہ اپنی جس ٹیچر سے متاثر ہو چکی تھی وہ اس کو کاپی کرنا پھر بھی نہ چھوڑ سکی یہاں تک کہ گاؤں کے کئی معزز گھروں نے عفت کا داخلہ اپنے گھر میں بند کر دیا لیکن اسے اس چیز کی کوئی پرواہ نہ تھی نہ ہی اسے کبھی اپنے والد کی عزت کا خیال آیا تھا اور نہ ہی کبھی اس نے اپنی چھوٹی بہنوں کے متعلق سوچا تھا۔

آغاز جوانی میں اس کی اس ایڈوانس سوچ نے اسے لڑکوں کے زیادہ قریب کر دیا اور وہ لڑکوں کی پہلی ترجیح بن گئی

دور جدید کا ابن ادم کسی چالاک بھیڑیے سے بالکل بھی کم نہیں ہے مختلف لڑکوں نے اس پر ڈورے ڈالنا شروع کیے اور وہ اپنی پسند کا لڑکا چننے لگی دوسری طرف اس کے کارناموں کی خبر اس کے والدین تک بھی پہنچنے لگی اس کے والدین نے اسے ایک بار پھر اس حرکت سے باز رہنے کا کہا لیکن اس نے والدین کی بات کو پھر سے نظر انداز کر دیا

یہاں تک کہ والدین کی سختی سے منع کرنے کے باوجود اس نے ایک لڑکے سے دوستی کر لی اور لڑکے نے اس کو ماڈل بنانے کے خواب اور ایکٹر بنانے کے خواب دکھا دیے یہ خواب انکھوں میں سجائے وہ گھر والوں سے رشتہ توڑ کر اپنے نام نہاد عاشق کے ساتھ گھر سے بھاگ نکلی

جب اس نے گھر والوں سے بھاگ کر اپنے عاشق کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا تو یہ اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر دی جن گھر والوں کو درحقیقت وہ اپنا دشمن سمجھ لی تھی حقیقت میں وہی اس کے محافظ تھے

اس کا عاشق اسے لے کر فیصل اباد کے کسی محلے میں جا بسا جب اس نے عرضہ دراز تک نہ صرف خود اس پر اپنی جسمانی ہوس مٹائی بلکہ اپنے دوستوں کو بھی یہ دعوت گناہ دی دور حاضر میں کوئی بھی اتنا پارسا نہیں تھا جس نے اس کی یہ دعوت قبول نہ کی اور بہت سارے لڑکوں نے بھی اپنی جسمانی ہوس عفت شہباز کے جسم پر مٹائی اگر عفت کبھی کوئی مزامحت کرنے کی کوشش کرتی تو وہ اس کو بتاتا کہ ماڈلنگ کے لیے ضروری ہے یہ سارے لوگ انڈسٹری سے تعلق رکھتے ہیں

اور انہی لوگوں نے تو ہمیں سلیکٹ کر کے لے جانا ہے وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اپنے جسم ان کو دینے کے لئیے راضی ہو جاتی

مگر یہ سب کچھ ڈھونگ کب تک چلنا تھا آخر ایک نہ ایک دن اس چیز کے بارے میں حقیقت نے سامنے آنا ہی تھا

جب ڈیڑھ دو سال تک عفت اپنا جسم ان درندوں سے نوچے جانے کے باوجود بھی ماڈلنگ کی دنیا میں قدم نہ رکھ سکی تو اس نے ضد کرنا شروع کر دی دوسری طرف اس کے عاشق کے دماغ سے بھی عشق کا بھوت اتر چکا تھا اس نے عفت کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ اس کو مجبور کرنے لگا کہ اپنا جسم بیچے لیکن عفت اس بات پر راضی نہ ہوئی مجبورا ایک رات اس نے نشے میں دھت ہو کر اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی کی اور پھر زبردستی دوستوں سے پیسے لے کر عفت کا جسم نوچتا رہا یہاں تک کہ درندگی سہتے سہتے وہ مر گئی

مردہ حالت میں اسے اٹھا کر ایک ویران جگہ پر لے جا کر اس کا جسم ریل کی پٹڑی پر رکھ دیا گیا اس کے جسم کے اوپر سے ریل گزر جانے کی وجہ سے اس کے جسم کے کئی ٹکڑے ہو گئے جن کو چننا اور گننا بھی ممکن نہیں تھا

جب لوگوں کو اس حادثے کے متعلق پتہ چلا تو لوگ دوڑے آئے تقریبا تین گھنٹے تک پٹڑی کے ارد گرد سے میت کے ٹکڑے جمع کیے جاتے رہے اس کے باوجود بھی آدھے سے کچھ زائد جسم کے کچھ ٹکڑے جمع ہو سکے باقی وہیں کہیں پڑے رہے

جب لوگ تھک گئے تو مزید سرچ آپریشن روک دیا گیا پولیس کی نگرانی میں ان ٹکڑوں کو قانونی کاروائی کے بعد دفنا دیا گیا

بعد ازاں کسی نہ کسی طرح قانونی سراغ رساں عفت شہباز کے عاشق تک پہنچ گئے اور اسے گرفتار کر لیا پولیس تفتیش کے دوران جب پولیس نے اپنے ہتھ کنڈے استعمال کئیے تو اس نے سارا سچ بتا دیا سارا سننے کے بعد پولیس نے اس کے ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا اور پھر عفت شہباز کے گھر والوں سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے عفت کی لاش لینے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی اس سے اظہار لاتعلقی بھی کر دیا

جب اس کے باپ کو اس کی موت کا پتہ چلا تو اس کے باپ نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا کہ کاش میری بیٹی نے اپنا جسم اپنے رب کی رضا کے لیے پردے میں رکھا ہوتا تو اس کا جسم اس دنیا تو کیا قبر میں بھی محفوظ رہتا ہے لیکن افسوس کہ اس نے اپنی جسمانی تسکین کے لیے خود کو دنیا کے لیے تماشہ بنانا چاہا تو اللہ تعالی نے اس کو عبرت بنا دی ہے

میں دور حاضر کی تمام لڑکیوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ آج کے دور کی ماڈلوں کی پیروی کرنے کے بجائے آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی پیروی کریں میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ جسم دنیا تو کیا قبر میں بھی محفوظ رہے گا