یورپین میڈیا اسلام کے خلاف
بسم اللہ الرحمن الرحیم/الحمدللہ رب العالمین۔
(پورا مغربی پریس اسلام کے خلاف مصروف کار ہے)
آج کل پورے مغربی پریس اور ان کے الیکٹرانک میڈیا ٹی وی ریڈیو وغیرہ نے اسلام خلاف پرو پگنڈا کرنے میں اپنی بھرپور طاقت لگا رکھی ہے اور اس اور اس پروپگنڈے میں دو باتیں بنیادی طور سے شامل ہوتی ہیں
ایک یہ کہ مسلمانوں کے یہاں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اور ان کو گھروں کی چار دیواری میں قید کر کے ان کی آزادی کو سلب کر لی جاتی ہے
اور دوسری بات یہ کہ مسلمان جہاد کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں
اور جہاد سے تو ویسے بھی یہ لوگ ہمیشہ سے ڈرتے رہے ہیں اور عورتوں کی تعداد پوری دنیا میں کم از کم نصف ہے تو ان کی کوشش یہ ہے کہ عورت کو اسلام کے خلاف پکا کر دیں کیونکہ عورت ہی وہ ذات ہے جس کی گود میں قومیں بنتی ہیں اس لیے اگر ہم نے عورت کو اسلام کے خلاف پکا کر دیا تو اسلام کا راستہ خود بخود رک جائے۔
لیکن تمام باتوں کے باوجود پروردگار عالم اپنی قدرت کا کرشمہ دکھا رہا ہے جن مراکز پر پروپگنڈے کا طوفان برپا ہے ان کی اپنی عورتیں مسلمان ہو رہی ہیں
اور وہ عورتیں اپنے اسلام کی وجہ یہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے آس پاس میں مسلمان عورتوں کو جو محبت شفقت عظمت ملتی ہے اس کا ہمارے یہاں تصور بھی نہیں ہے ہم خواہ کتنے ہی گئے گزرے ہوں
لیکن الحمدللہ ابھی بھی اتنی بات ہے کہ ہم لوگ اپنی ماں کی عزت کرتے ہیں اتنا جانتے ہیں کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہیں اور بچپن ہی سے ہمیں یہ سکھا دیا گیا ہے کہ ماں عظمت بہن کی محبت اور بیٹی کی شفقت ہمارے دل میں ہر وقت ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں
مغربی میڈیا مسلمانوں کے عیب اچھالنے کی تلاش میں
مشہور امریکی نقاد ایڈورڈ ڈبلو ساد اپنی کتاب میڈیا اور اسلام میں مغربی میڈیا کے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عجیب رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
آج کل امریکہ اور یورپ میں عام لوگوں کے لیے اسلام کا مطلب ایسی چیزیں ہیں جو خاص طور پر ناگوار خاطر ہے میڈیا حکومتیں اور دانشور سب اس پر متفق ہیں کہ اسلام مغربی تمدن کے لیے خطرہ ہے اسلام کی منفی باتیں دوسری باتوں کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے اس لیے نہیں کہ اسلام سے ان کا کوئی واسطہ ہے بلکہ اس لیے کہ سوسائٹی کا ایک اچھا طبقہ ان کو ایسا ہی گردانتا ہے
یہ طبقہ بڑا باثر ہے اور اس نے اسلام کے اس منفی تصور کو پھیلانے کا ارادہ کر رکھا ہے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہو کہ امریکہ میں ٹیلی ویژن پر مقبول ترین اوقات میں شاید ہی کوئی پروگرام ہو جس میں نسلی عداوت شامل نہ ہو اور جہاں مسلمانوں کا مذاق نہ اڑایا گیا ہو اور جہاں مسلمانوں کو جذک کا نام دے کر برا بھلا نہ کہا گیا ہو اسلام کے مقابلے میں امریکہ کی رائے عامہ یہ ہے کہ جو چیز انہیں ناپسند ہے وہ اسلامی ہے۔
مغربی مصنفین کا منافقانہ رویہ
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انجینئرنگ کے شعبوں میں اور ڈاکٹرییٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کی 50 فیصد تعداد عالم اسلام سے تعلق رکھنے والے طلبہ پر مشتمل ہوتی ہے امریکہ میں سائنس ٹیکنالوجی کے میدانوں میں بھی مسلمانوں کی ایک تعداد شامل ہے مغربی میڈیا سے صرف جزئی اور انفرادی سطح کی کامیابی کا سرٹیفیکیٹ دیتی ہے
جبکہ یہودیوں کی کم و بیش اس قسم کی کامیابیوں کا اس طور پر ڈنڈورا پیٹتی ہے کہ گویا یہ نسلی برتری کی دلیل اور یہودی قوم کی ذہانت اور فطری صلاحیتوں کی نتیجہ ہے۔
گزشتہ دنوں امریکہ میں کتاب چھپی اس کا نام ہے یہود اور سیاہ فاموں کے درمیان اس کتاب میں یہود اور سیاہ فاموں کے درمیان مختلف اعتبارات سے تقابلی مطالعہ کیا گیا مصنف نے کئی مواقع پر زور دے کر یہ بات لکھی ہے کہ اگرچہ یہودی اور سیاہ فام دونوں ہی امریکی اقلیت ہیں تا ہم جہاں تک مغربی تہذیب پر اثر اندازی کا تعلق ہے دونوں میں واضح فرق ہے مصنف نے یہودیوں کی قصیدہ خوانی میں کوئی کسر اٹھانا نہیں رکھی ہے
ان کی فطرت ذہانت کی تفصیلات کافی رنگ کے ساتھ پیش کی ہیں جبکہ سیاہ فاموں کے معاملے میں انصاف اور غیر جانبداری کو رکھا کر غلط تفصیلات دی گئی ہے اور ان کی اصل پوزیشن کو کافی گھٹا کر دکھایا گیا ہے اس کی وجہ ظاہر ہے کہ سیاہ فاموں میں اسلام کافی تیزی سے کے ساتھ پھیل رہا ہے چنانچہ جب ایک عام اور سادہ لو ادمی اسے پڑھے گا تو اس کا کیا تاثر ہوگا یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
مغربی جرائد کے چند مکالوں کے عنوان
مغربی جرائد دنیا بھر میں برپا ہونے والے اسلامی تحریکات کے خلاف نفسیاتی جنگ کیے اسالیب سے بھرے رہتے ہیں مثال ان جرائد میں مکالوں کے عنوان یہ ہوتے ہیں۔
1۔سیاہ افریقہ سے سائبیریا کے اخری کناروں تک اسلام کی لہر دنیا کو فتح کرتی جا رہی ہے یہ مضمون فرانسیسی مجلہ باری ماتش میں شائع ہوا اور اس کا ترجمہ لاسلا صد چھپا۔
2. مغربی جرائد کا اسلام پر حملہ سنڈے ٹیلی گراف اس کا ترجمہ 425 میں شائع ہوا۔
3. اسلامی نشاست ثانیہ کی اندھیاں دنیا کو خوفزدہ کررہی ہے حیرہ الڈرپون اس کا ترجمہ البلاغ عدد 429 میں شائع ہوا.
ان سب امور پر یہ کہ مغربی جرائد اسلامی تحریکات اور مسلم حکمرانوں کے درمیان اویزش کو ہوا دیتے ہیں اور کشمکش کو بڑھاتے رہتے ہیں اور حکمرانوں کو اکساتے ہیں کہ وہ اسلامی تحریک کو ختم کر دے اور کچل دیں یہ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائے
مقصود کلام یہ ہے کہ ہمیں مغربی جرائد اور ان سے ترجمہ ہونے والے مضامین کو مکمل احتیاط کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہم ان کی شرانگیزی سے بچ سکیں
اسلام کے خلاف بکواس کرنے والی تسلیمہ نسرین کا سویڈن میں استقبال
یورپ کی اسلام دشمنی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش کی تسلیما نسرین کو اسلامی نظریات سے اختلاف پیدا کرنے پر مغربی ممالک نے اپنے ہاں پناہ دینے کی پیشکش کی اور سویڈن میں پناہ لینے پر وزیراعظم سویڈن نے خود ایئرپورٹ پر اس کا استقبال کیا سویڈن میں اسے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا اور اسی طرح سلیمان رشدی کو یورپ نے ہاتھوں ہاتھ لیا یورپ میڈیا نے اس کے خیالات خوب اچھالا اور اسلام دشمنی کا ثبوت دیا۔
لائبریوں میں اسلام مخالف لٹریچر
ڈاکٹر شیلڈرک انگلستان کے صحافی تھے وہ لکھتے ہیں مذاہب عالم پر انگلستان کی لائبریریوں میں جتنی بھی کتابیں ملی میں نے سب پڑھ لی کتابوں میں یہودیت ہندومت اور بدھ مت وغیرہ کے بارے میں تو صرف معلومات تھی مگر اسلام کا جہاں بھی ذکر اتا تھا کوئی مصنف بھی خلاف بولے بغیر نہیں رہ سکتا تھا
اسلام کے بارے میں ان کتابوں کا حاصل یہ تھا کہ اسلام بذات خود کوئی مستقل مذہب نہیں بلکہ محض عیسائی لٹریچر سے محفوظ چند اقوال کا مجموعہ ہے اگر عیسائی مصنفین مذہب اسلام سے خائف نہ ہوتے نہ ہی اٹھتے بیٹھتے اس کی توہین کے در پہ ہوتے تو اسلام کا مطالعہ کبھی نہ کرتا۔
امریکہ میں اسلام کے خلاف 25 ہزار کتابیں چھپی
مراکش اور لبنان کے دو مسلمان سکالروں نے 1920 اور 1928 کے درمیان امریکہ میں اسلام کے موضوع پر شائع ہونے والی تحریروں کا جائزہ لیا تھا اور اس تحقیق کے نتائج مرتب شکل میں پیش کیے تھے مراکش کے اسکالر کا نام ڈاکٹر حمید بن کلاب ہے اور لبنانی سکالر کا نام محمد اقبال ہے
اپنی ریسرچ میں انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں اسلام کی مخالفت میں 25 ہزار کتابیں چھپی 30 ہزار رسائل شائع ہوئے 20 ہزار مضامین لکھے گئے اور 2500 فلمیں بنائی گئی فرانس اور سویڈن میں 15 ہزار کتابیں چھپی 12 ہزار رسالے شائع ہوئے اور 50 ہزار مضامین چھاپے گئے اور 3 ہزار فلمیں تیار ہوئیں۔
یہ حال ان ملکوں کا ہے جنہیں جمہوریت پر ناز ہے اور جن کی دوستی پر مسلمانوں کو ناز ھے ان ملکوں میں اسلام کے خلاف بدگمانی پھیلانے کا مشن اتنا طاقتور ہے کہ بھارت کے اخبارات کا جائزہ لینے کے لیے یونیورسل پیس فاؤنڈیشن انڈیا نے پریس مانیٹرنگ سیکشن قائم کیا ہے اس سیکشن کے ذمہ داروں کے سامنے جب اخبارات کے تراشے رکھے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر یہاں بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فضا بنائی جا رہی ہے۔
ہم مسلمان کو اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اسلام کے خلاف عالمگیر نشریاتی تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کیا کتنی کتابیں چھاپی گئیں کتنی زبانوں میں ترجمے ہوئے کتنی دعوتی کتابیں تیار کی کتنی زبانوں میں کی ہم نے غیر مسلموں تک کتابوں کے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہم نے ان کے شک و شہبات کو دور کرنے کے لیے کیا کیا صرف کسی ایک ادارے کی نہیں بلکہ یہ ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں اور حلقہ احباب کو اسلام پر کتابوں کا تحفہ پیش کرے اور اپنے حسن اخلاق سے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں ہر شخص کو چاہیے کہ دعوت کے مشن میں خود کو شامل کرے اور غیر مسلموں تک اللہ کا پیغام پہنچائے۔