اگر آپ کسی دوکان پہ کچھ خریدنے جائیں اور آپ کو اندازا ہو جائے کہ یہ دوکان دار دھوکے باز ہے تو کیا پھر بھی آپ اس سے خریداری کر لیں گے ؟ یقیناً آپ کا جواب نہ میں ہو گا ۔۔۔۔ بلکہ سادہ نا کہنے کی بجائے آپ کہیں گے
"ہرگز نہیں۔ میں کوئی بیوقوف ہوں۔"
اگر آپ کے سامنے کوئی دوسرا گاہک جان بوجھ کر اسی دوکاندار سے دھوکہ کھا کر غلط چیز خرید لے تو آپ کو اس کی عقل پہ افسوس بھی ہوگا جس نے جانتے بوجھتے دوکاندار کو اجازت دی کہ وہ اسے لوٹ لے۔
آپ اور میں، ہم سب جانتے ہیں اور اب تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ف+حش فلموں پہ مبنی انڈسٹری ، بلین ڈالرز انڈسٹری ہے۔ اس کاروبار میں ملوث دوکاندار دنیا میں دھوکہ اور جھوٹ بیچنے والے سب سے بڑے بیوپاری ہیں۔ انہیں اس بات سے ہرگز کوئی غرض نہیں کہ ان کی بنائی گئی یہ تباہ کن فلمیں معاشرے پہ کتنے بھیانک اثرات ڈال رہی ہیں ؟
ان فلموں کو دیکھ کر کتنے لوگ کمسن بچوں کی معصومیت اجاڑ دیتے ہیں ؟
کتنے گھروں میں محرم رشتے ، ناپاک ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ؟
ان سب اعدادو شمار سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ انہیں صرف اپنی جیب بھرنے سے غرض ہے۔ یہ لوگ دراصل اس دوکاندار سے کہیں بڑے دھوکے باز ہیں جس سے خریداری کرنے سے آپ سختی سے منع کر چکے ہیں۔
کیونکہ وہ دوکاندار آپ کو معمولی مالی نقصان پہنچا رہا تھا جبکہ یہ بے حس لوگ تو نسلوں کو برباد کر رہے ہیں۔ ان کے کسٹمرز ذہنی طور پر اس قدر مفلوج ہو جاتے ہیں کہ ایک جیتنی جاگتی خوبصورت بیوی ان کے پاس موجود ہو ، تب بھی وہ اس میں کوئی کشش محسوس نہیں کر پاتے۔ اچھے بھلے صحتمند مرد ، بھی سائز اور ٹائمنگ کے حوالے سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔
اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ یہ ویڈیوز جو آپ اپنے آرام دہ بستر پر بیٹھ کر محض ایک فنگر کلک سے حاصل کر لیتے ہیں اور ان کا دورانیہ عموماً تیس منٹس تک بھی ہوتا ہے ، ان کی ریکارڈنگ کیسے ہوتی ہے اور انکے پیچھے کیا راز ہوتا ہے تو آپ شاید خود پر ترس کھا لیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب ایک لت یا ایڈکشن حد پار کر جاتی ہے تو اس کے تمام نقصان جاننے کے باوجود اس کو چھوڑنا آپ کےلئے مشکل ہوجاتا ہے۔
ایسی ویڈیوز بنا کر بیچنے والے لوگ بے ضمیر ہیں اور وہ انسانیت کی حد سے گر کر ہر ڈیمانڈ پوری کرنے پر راضی ہوتے ہیں۔ جب ایک بندہ عام ویڈیوز دیکھ دیکھ کر تنگ آجاتا ہے تو مختلف غیر فطری چیزیں اس کو مہیا کی جاتی ہیں۔ پھر یہی لوگ پیسے دے کر انٹرنٹ پر مختلف گروپس جوائن کر لیتے ہیں جہاں فحاشی کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی۔
ڈارک ویب اس سے بھی آگے کی چیز ہے جہاں کمسن بچوں کو اغوا کرکے مال مویشیوں سے بھی بدتر طریقے سے گاہک کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور ذہنی مریض لوگ ان پر ظلم ہوتا دیکھنے کے لیے بھاری رقم خرچ کرتے ہیں۔ ڈارک ویب پہ پہنچنے والے بندے نے بھی آغاز کسی سادہ ویڈیو کو دیکھنے سے ہی کیا ہوتا ہے۔
اب آپ خود غور کر لیں کہ جس انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا تھا ، وہ اپنے مقام سے گر کر جانور سے بھی بدتر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ کام تو جانور بھی نہیں کرتے۔
کبھی وقت نکال کر تھوڑی بہت ریسرچ کریں کہ ایسی گندی ویڈیوز میں کس طرح ایک ہی شوٹ کو لمبا کر کے دکھایا جاتا ہے اور کیمرے کے کمال سے فحش سٹیپ وڈیو میں کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
سائز اور ٹائمنگ کا دھوکہ کیسے بیچا جاتا ہے ؟ ایسے پورن سٹارز جو پہلے اس انڈسٹری میں کام کرتے تھے اور اب اس گندگی کو چھوڑ چکے ہیں، ان کے انٹرویوز دیکھیے۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ اس دلدل میں کیا کیا ہورہاہے۔
اس ایک کوشش سے شاید آپکے دل میں اس عادت سے نفرت کرنے کا امکان بڑھ جائے۔ بہت سے لوگ جب اس لت میں بری طرح پھنس جاتے ہیں تو وہ اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ ایسے ایسے پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں جہاں انکا پیسا بھی ضائع ہوتا ہے اور صحت بھی۔ اس کے علاوہ وطن کی بدنامی الگ۔
آپ سوچیں آپ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں جائیں اور وہاں ایک غیر ملکی آپ سے کہے کہ تمہارے ملک میں اتنے فیصد لوگ یہ گندگی دیکھتے ہیں اور تم اس کام میں دنیا میں ایک نمایاں درجے پہ موجود ہو تو کتنی شرمندگی ہوتی ہو گی ؟ بجائے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ٹاپ ٹین میں آنے کے ، ہم کہاں اور کس کام میں دوسری قوموں سے آگے بڑھے ہوئے ہیں ؟
خدارا ! یہ فحش مواد اور ویب سائٹس دیکھنا بند کیجیے۔ ورنہ ہم ایک حلال رشتہ ہوتے ہوئے بھی سکون سے محروم رہ جائیں گے۔ اس کے بد اثرات ہماری آنے والی نسلوں میں بھی پائے جائیں گے۔
میرے بھائیو ! یہ عادت چھوڑنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ بس یہ سوچ لیں کہ آپ اس وقتی لذت کی کتنی بڑی قیمت چکا رہے ہیں۔
اللہ اس امت کے ہر نوجوان، ہر مرد و زن کو حیا کا دلکش زیور نصیب فرمائے۔
اللہ ہم سب کو توبۃ النصوح نصیب فرمائے۔
ہمیشہ کے لیے آنکھ بند ہونے سے پہلے پہلے ہماری آنکھ کھل جائے۔ آمین