یورپ کے سود خور خاندان
یورپ کے سود خور خاندانوں کے گٹھ جوڑ نے ذاتی قدر و قیمت رکھنے والی کرنسی (دینار و درہم) کو ایسی کاغذی کرنسی سے تبدیل کر دیا جس کی کوئی ذاتی قدرو قیمت نہیں ہے۔ اب وہ دنیا بھر کے ملکوں کی معیشت کو اس طرح کنٹرول کرتے ہیں کہ جب چاہیں کسی ملک کی کرنسی کی قیمت کو گھٹا یا بڑھا دیں۔
جس ملک کی کرنسی کی قیمت گرتی ہے اس ملک کے باسیوں کے مال پر غیر منصفانہ اور بظاہر قانونی ڈاکہ پڑ جاتا ہے۔ زرمبادلہ کا ذخیرہ کم ہو جاتا ہے۔ ادائیگیوں کے لئیاسے سود پر مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔ بنکسٹرز جس ملک کو نشانہ بنالیں اس ملک کی کرنسی کو اتنا گراتے چلے جاتے ہیں کہ اصل تو کیا صرف سود ادا کرنے کے لئے اس ملک کو مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
خود پاکستان کی مثال آپ کے سامنے ہے جو مالیاتی بحران کے بوجھ تلے سسک رہا ہے۔ عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔
اس نظریہ اور طریقہ واردات پر John Perkin نے اپنی کتاب Confession of an Economic Hit Man میں خوب روشنی ڈالی ہے کہ جیسے ہی کرنسی کی قیمت گرتی ہے، زمین، جائداد، لیبر اور دیگر ضروریات ان لٹیروں کیلئے سستی ہو جاتی ہیں
دنیا بھر کے غریب ممالک کے باشندوں کو ساری زندگی جان جوکھوں میں ڈال کر محنت کرنی پڑتی ہے تاکہ مغرب کے لٹیروں کو بہتر آسائشیں میسر رہیں۔ اسکا دوسرا المناک پہلو یہ ہے کہ جب غربت آتی ہے تو رشوت کو فروغ ملتا ہے۔ دیگر برائیاں جنم لیتی ہیں۔ آج ہر کوئی یہ سوال کرتاہے کہ افریقہ اور ایشیا کے غریب یا مسلم ملکوں میں اس قدر برائیاں کیوں پائی جاتی ہیں؟
اور مغرب ان برائیوں سے کیوں مبرا اور پاک ہے؟ کم لوگ ہی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ جب ضروریات زندگی جائز طریقے سے پوری نہ ہوں تو حرص و ہوس رکھنے والا یہ انسانی پتلا ناجائز ذرائع اختیار کر لیتا ہے۔
کرنسی کی قیمت گرنے پر IMF(انٹرنیشنل مانیٹری فنڈجو عالمی مالیاتی نظام کو کنٹرول کرنے کیلئے بنکسٹرز کا ایک استحصالی ادارہ ہے) نج کاری پر زور دیتا ہے۔
پھر یہ لٹیرے ان غریب ملکوں کی معدنی دولت، پٹرول، گیس، بجلی گھر، کمیونیکیشن اور دیگر صنعتیں اونے پونے داموں خرید لیتے ہیں۔ پاکستان میں سٹیل مل کا شرمناک سودا، کمیونیکیشن اور بنکنگ سیکٹر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
ان لٹیروں کا مقصد صرف غیر گوری اقوام کا خون چوس کر ٹھاٹ سے رہنا ہی نہیں ہے بلکہ وہ پوری دنیا کو معاشی بدحالی میں گرفتار کر کے انہیں اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں تاکہ پوری دنیا پر ان کا آمرانہ اقتدار قائم رہے.
خدا کے لئے عقل سے کام لو اب تواپنی آنکھیں کھول کر دکھو کیا حال ہو گیا ہے پاکستان کا اور اس کی عوام کا۔۔
ایک غریب آدمی کے لیے ایک وقت کا کھانا مشکل ہو گیا ہے۔
مہینے کی ساری آمدن بجلی گیس کے بل ادا کرنے میں اور باقی کی پیٹرول اور سکول فیس میں چلی جاتی ہے۔
اب چھوڑ دو اس ملک کو
کیا نکاتے ہو اب اس ملک میں سے
جو تھا وہ لے چکے اب سوائے غریبی کے اور کچھ نہیں رہ گیا
کاروبار کا بیڑاغرق ہو چکا ہے۔
معیشت تباہ ہو گئی ہے۔
قرض لے لے کر عوام پاگل بن گئی ہے۔
اس سے اچھا مار دو اس عوام کو اور پھر راج کرتے پھرنا اس ملک پر۔
جاہل لوگ اب بھی نہیں سمجھ رہے۔
اے اللہ جی رحم فرما دے ہمارے حال پر غریبوں کے حال پر۔ ہمارے گناہ معاف فرما دے ہم آپ سے معافی مانگتے ہیں ہمیں ظالم لوگوں ظالم حکمرانوں سے نجات عطا فرما دے آمین