محبت نبھانے کیلئے
سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ اس کے سٹیٹس کیمطابق اس سے ملنا پڑتا تھا جو کہ بہت مشکل کام تھا
..محبت نبھانے کیلۓ کتنا خوار ہونا پڑرہا تھا یہ مجھے پتہ تھا.....
میٹرک تھرڈ ڈویژن میں پاس کرکے ادھر ادھر مزدوری کرتا تو اتنی دیہاڑی بن جاتی کہ ہم ماں بیٹے کا دو وقت کی دال روٹی کا بندوبست ہوجاتا..
ان دنوں میں ایک سروس سٹیشن پہ نوکری کررہاتھا..سارا دن لوگوں کی گاڑیاں دھوتا...چٹھی والے دن پارکوں,بازاروں کے چکر لگاتا کہ شاید کوئی لڑکی تھوڑی بہت لفٹ دےدے ...
زندگی کا بڑا مقصد ہی یہی تھا..خدا نے شکل وصورت اچھی دی تھی مانگے کے کپڑوں میں سوٹڈ بوٹڈ ہوکر لڑکیاں متوجہ ہوجاتیں....
اس کو پہلی بار میں نے سپرجناح میں شاپنگ کرتے دیکھا تھا اس کے ساتھ ایک اور لڑکی بھی تھی ...اس نے مسکراکر میری طرف کیا دیکھا کہ میں حسب عادت پیچھے ہی لگ گیا..
شاپنگ کرکے وہ دونوں نئے ماڈل کی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئیں مگر اس سے پہلے میں نے اس سے موبائل نمبر حاصل کیا تھا..
یہ بھی پڑھیں
یہ آج کے دن کی بہت بڑی کامیابی تھی..میں بہت خوش تھا...ہم ساری رات ایک دوسرے کو ایس ایم ایس کرتے رہے...
میں نے اس سے جھوٹ بولا کہ میڈیکل کا سٹوڈنٹ ہوں اور ڈیڈی بھی ڈاکٹر ہیں...
اس نے بتایا کہ اس کے پاپا بہت بڑے بزنس مین ہیں جو بزنس کیلیۓ زیادہ تر دوبئی ہوتے ہیں....میری تو گویا لاٹری ہی نکل آئی تھی..
آہستہ آہستہ ہماری دوستی گہری ہوتی گئی..ہم ایک دوسرے سے ملنے لگے..میں اسے واقعی ہی شدت سے چاہنے لگا...
اللہ بھلا کرے سروس سٹیشن کے مالک کے بیٹے کا..جو میرا دوست بن گیا تھا...ہر ملاقات پہ جانے کیلیۓ اس کا سوٹ,شوز,قیمتی گھڑی,موبائل ,گلاسز اور گاڑی لیکر جاتا...
مجھے اپنا آپ مرزاظاہردار بیگ لگ رہا تھا مگر کیا کرتا مجبوری تھی..
یہ کوئی فلمی سٹوری تو تھی نہیں کہ وہ میری اصلیت جان کر گلے لگاتی..رئیل لائف کا قصہ تھا مجھے پتہ تھا کہ جس دن اس کو میری دو ٹکے کی حیثیت کا پتہ چل گیا..سیدھی کک لگاتی اور شاید پٹائی بھی کرتی...ویسے بھی وہ بڑے باپ کی اکلوتی بیٹی تھی دماع عرش پہ ہی رہتا تھا.....
ایک روز صبح جب میں میلے کچیلے کپڑوں میں سروس سٹیشن پر گاڑی دھونے پہ جتا ہوا تھا اچانک کسی نے پیچھے سے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا...جیسے ہی میں نے پیچھے مڑکر دیکھا....میرا دل دھڑکنا بھول گیا..حلق خشک ہوگیا اور رنگت ایسی کہ کاٹو تو لہو نہیں...
سامنے وہ بڑے سٹائل سے کولہو پہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی اور حسب_عادت چیونگم چبارہی تھی....
,,ڈاکٹر صاحب کیا حال ہے,,وہ طنزیہ لہجے میں بولی....
میں ہونقوں کی طرح اس کا منہ تکنے لگا ..منہ سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی اس نے مجھے رنگے ہاتھوں پکڑلیا تھا اسے میری دو ٹکے کی حیثیت کا پتہ چل گیا تھا....
,,تم تو یار بہت بڑے فنکار نکلے ..واہ جی واہ..اداکاری تو کوئی تم سے سیکھے استاد جی,,
اس کے الفاظ ہتھوڑے کیطرح میری کھوپڑی پہ لگ رہے تھے..میں شرمندگی اور بے عزتی کی شدت سے رونے ہی لگ گیا..
اس نے اچانک دھکا دیکر مجھے پیچھے رکھی کرسی پہ گرادیا...وہ میرے نزدیک آکر مجھے کان سے پکڑکر مجھ پہ جھک گئی...پھر ٹھوڑی سے پکڑ کر میرا چہرہ اٹھایا..اس کی چیونگم کی خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرارہی تھی...
میرے کان کے ساتھ منہ لگا کر اس نے جارحانہ انداز میں کہا..
,,کل ماں کو رشتے کیلیۓ ہمارے گھر بھیجنا اوکے,,
میں حیرت و بے یقینی سے اچھل پڑا بے اختیار میرے منہ سے نکلا....
,,کیا,,
اگلے دن اماں انکے گھر چلی گئی...واپسی پہ بہت خوش تھی انہوں نے اماں کو بہت محبت دی تھیی اور رشتہ بھی پکا ہوگیا تھا.....
شادی کے بعد اس کے ,,,پا پا,,,نےاپنی اکلوتی بیٹی کا خاوند ہونے کی وجہ سے چالو بزنس ہی میرے حوالے کیا...
آج کل میں سسر کی دی ہوئی منڈی موڑ پہ چاٹ سموسے کی چھوٹی سی دوکان چلارہا ہوں..خدا کا شکر ہے اچھا گزارہ ہورہا ہے...
اور میرے سسر نے ان دنوں لاری اڈے کے باہر پکوڑوں کی ریڑھی لگا رکھی ہے