آسیب زدہ || asaib zada

GR SONS

 

آسیب زدہ




میں نے ٹکٹ خریدی اور ٹرین کی طرف بڑھ گیا بھانت بھانت کے لوگوں کی بھانت بھانت بولیاں پلیٹ فارم پہ گونج رہی تھیں میں سب کو نظر انداز کرتا ٹرین میں گھس گیا ۔

کچھ دیر بعد میں اپنی سیٹ پر براجمان ہو چکا تھا۔ میرے سامنے والی سیٹ پر باپردہ تین خواتین بیٹھی تھیں اور میری سیٹ پر دو لڑکے بیٹھے تھے انکو آپس میں بولتا دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ ایک ہی فیملی کے لوگ ہیں ۔مجھے شیشے والی سائڈ پہ سیٹ مل گئی تھی ۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا ۔

اور سوچنے لگا کہ اسٹیشن بھی عجیب جگہ ہے کتنوں کو ملاتا ہے اور کتنوں کے بچھڑنے کی یادیں یہ سمیٹ کر کھڑا ہے ۔ اتنے میں ایک ہلکے سے جھٹکے سے ٹرین چل پڑی . میں نے ایک گہری سانس لی اور جیب سے موبائل فون نکال کر اس میں مصروف ہو گیا ۔


مجھے سفر کرتے سات گھنٹے سے اوپر ہو گئے تھے راستے میں کچھ اسٹیشنز پر گاڑی رکی تھی اور اب فراٹے بھرتی چلی جا رہی تھی کچھ دیر پہلے ہی مجھے بتا دیا گیا تھا کہ منزل قریب ہے میں نے موبائل پہ ٹائم دیکھا رات کے دوبجے تھے اگلا اسٹیشن میری منزل تھی ۔ مجھے بتا دیا گیا تھا کہ بیس منٹ تک ٹرین نے مطلوبہ اسٹیشن پہنچ جانا ہے میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا کچھ دیر تک ٹرین میرے مطلوبہ اسٹیشن پہ جا کر رک گئی


یہ بھی پڑھیں



میں اٹھا اور ٹرین سے باہر نکل آیا پلیٹ فارم پر اتر کر ادھر ادھر دیکھا مگر میرے میزبان جن کے بلانے پہ میں یہاں اس وقت آیا تھا وہ مجھے کہیں نہیں نظر آرہے تھے میں نے آگے دیکھا کچھ اور مسافر بھی اترے تھے یہ ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا سامنے ایک ٹی سٹال تھا میں ٹی سٹال کی طرف بڑھ گیا ایک ادھیڑ عمر کا لمبا تڑنگا آدمی ٹی سٹال کے اندر بیٹھا تھا مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا میں نے اس کے پاس پہنچ کر سلام کیا جس کا اس نے مروتاً ہی جواب دیامیں نے اس سے ایک کپ چاے بنانے کو کہا اور ساتھ میں بسکٹ بھی مانگے ۔ وہ اسی وقت کیتلی کے نیچے آگ جلانے لگ گیا میں پاس پڑے بنچ پر بیٹھ گیا


ٹرین سے کوئی دس بارہ مسافر ہی اترے تھے جو جلدی جلدی اسٹیشن سے باہر جارہے تھے ٹرین نے وسل دی اور چل پڑی جس کی وجہ سے کچھ دیر تو پلیٹ فارم پہ ٹرین کے چلنے سے شور رہا پھر آہستہ آہستہ جیسے ٹرین دور ہوتی گئی خاموشی چھاتی رہی میں بنچ پہ بیٹھا ٹرین کو جاتے دیکھتا رہا ۔

ٹرین کی آواز اور ٹرین نظر آنا بھی بند ہوگئی میں نے ادھر ادھر کا جائزہ لیاکچھ دور اسٹیش اور پلیٹ فارم۔کے راستے پر پر ایک بڑی سی زرد رنگ کی لائٹ فضا کو روشن کرنے کی ناکام کوشش میں جل رہی تھی ۔میرے کانوں میں سٹوو کے چلنے کی آواز آرہی تھی ساتھ میں فضا میں پھیلی چاے بننےکی مہک بتا رہی تھی کہ میں مزیدار چاے پینے والا ہوں کچھ دیر بعد چاے والے نے بسکٹ اور چاے کا کپ میرے آگے لاکر رکھ دیا چائے میرے اندازے سے کہیں ذیادہ مزیدار تھی ۔

خیر چائے سے فارغ ہو کر میں نے چائے والے کے پاس جا کھڑا ہوا اس سے کچھ دیر بات چیت کی اور دوبارہ بنچ پر آبیٹھا اسی اثنا میں اسٹیشن کی چھوٹی سی عمارت سے دو بندے نکلے جن کے پیچھے کا منظر دیکھ کر میں چونک اٹھا اور میری ذبان پہ تیسرے کلمہ کا ورد جاری ہو گیا پلیٹ فارم کی سیڑھیاں چڑھ کر پلیٹ فارم پر آکر ان دونوں نے ادھر ادھر دیکھا جب انکی نظر مجھ پر پڑی تو وہ دونوں جلدی جلدی چلتے میری طرف آنے لگے میں غور سے انکو اپنی طرف آتا دیکھ رہا تھا مگر اب میرے چونکنے کی وجہ ختم ہو گئی تھی
دونوں کی عمر تقریباً پچاس پچپن کے لگ بھگ ہوگی دونوں کی ماشاللہ ریش تھی میرے پاس آکر دونوں نے خوشدلی سے سلام کیا اور میں کھڑا ہو گیا اور سلام کا جواب دیا ۔ ان میں سے ایک نے کہا معذرت کچھ منٹ دیر ہوگئی دراصل گاڑی کا ٹائر پنکچرہو گیا تھا ۔ میں نے اسے کہا کہ کوئی بات نہیں میں سمجھ سکتا ہوں ویسے آپ کا دیر سے آنا میں نے محسوس نہیں کیا ۔

تھوڑا اور رسمی باتوں کے بعد ان میں سے ایک نے کہا چلیں میں نے کہا نہیں ابھی نہیں چلنا ۔

انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہچکچاہٹ بھرے لہجے میں پوچھا کہ کیا وجہ خیریت تو ہے ۔ میں نے کہا بلکل خیریت ہے بس کچھ دیر آپ سے یہاں باتیں کرنا چاہتا ہوں پھر اس کے بعد چلے چلتے ہیں ۔

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ان میں سے ایک نے کہا کہ جیسے آپ کا حکم ۔ اور اونچی آواز میں چاے والے کو تین کپ چاے کا کہا ۔ میں نے کہا چاے تو میں آتے ہی پی چکا ہوں مگر اس بھائی صاحب کی چاے ہی اتنی مزیدار ہے کہ دوبارہ سے پی لونگا میں نے یہ کہتےہوے چاے والے کو دیکھا مگر وہ منہ نیچے کیے اپنے کام میں مصروف تھا ۔میں بنچ پر بیٹھ گیا ان میں سے ایک میرے ساتھ اور دوسرا ساتھ والے بنچ پر بیٹھ گیا ۔

پلیٹ فارم لوگوں سے تقریباًًخالی تھا میں نے کہا کہ سب سے پہلے تو آپ اپنا تعارف کروا دیں اور اپنا سارا مسلہ یہیں بتا دیں کیونکہ جب آپ مجھے نظر آے تو آپ کے پیچھ کوئی اور بھی تھا اس لیے میں چاہتا ہوں آپ مجھے اپنا سارا مسلہ یہیں ڈسکس کریں میری بات سن کر وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ان میں سے جو دوسرے سے عمر میں بڑا اور میرے ساتھ بنچ پر بیٹھا تھا اس نے ایک گہری سانس لی اور کہا کہ جناب سب سے پہلے تو بہت شکریہ یہاں آنے کا اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا میرا نام منظور ہے اوریہ میرا چھوٹا بھائی ظہور ۔ ہم ایک مصیبت میں پھنس گئے ہیں ۔ ۔ میں نے کہا آپ اللہ پہ بھروسہ رکھیں سب ٹھیک ہو جاے گا مجھے ساری بات تفصیل سے بتائیں


اس نے کھنکار کر گلہ صاف کیا اور بولا میں ایک سرکاری محکمے میں اچھے عہدے پر فائز ہوں بڑا گھر بنانا میرا خواب تھا میں نے پرانا گھر بیچا اور اپنے حصے میں آئی ذمین بیچ کر ایک پلاٹ خرید لیا اور اس پر مکان کی تعمیر شروع کر دی میرے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں بڑے بیٹے کا رشتہ میرے اس بھائی ظہور کی بیٹی سے بچپن سے ہوا ہوا تھا ہمارا ارداہ تھا کہ مکان کی تعمیر مکمل ہوتے ہی بچوں کی شادی کر دیں گے مکان کی تعمیر کے بعد ہم نئے گھر شفٹ ہو گئےشادی کے دن رکھے گئے اور دھوم دھام سے شادی ہو گئی


شادی کے بعد خاندان میں دعوتیں شروع ہوگئیں ۔ ایک صبح میں دفتر جانے لگا تو مجھے بیگم نے کہا کہ آج ظہور بھائی نے رات کے کھانے کی دعوت دی ہے ہم سب کو تو آپ جلدی آجائیے گا ۔ میں نے معذرت کرتے ہوے کہا کہ آج شام کو ایک دوست کی بیٹی کی بارات پہ مدعو ہوں تم لوگ چلے جانا میں فارغ ہو کر وہیں آجاوں گا ۔ عصر کو چار بجے میں گھر آیا تو گھر لاک تھا میں سمجھ گیا کے سب گھر والے ظہور کے گھر چلے گئے ہیں میرے پاس ایکسٹرا چابی ہوتی ہے میں نے گھر کا لاک کھول کر اند جا کر کچھ دیر آرام کیا اور مغرب کے بعد وقت مقررہ پر دوست کے گھر چلا گیا وہاں سے فارغ ہوتے دس بج گئے میں جب گھر کے گیٹ پر پہنچا تو ساڑھے دس ہو چکے تھے میں نے لاک کھولا اور اندرداخل ہو گیا۔

سامنے کچن میں برتنوں کی کھٹ پٹ کی آواز آرہی تھی میری بیٹی سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی مجھے دیکھتے ہی اس نے سلام کیا اور اوپری پورشن کی سیڑھیاں چڑھ گئی میں نے بیگم کو آواز دی تو کچن سے اس کی آواز آئی میں نے کہا میری چائے میرے کمرے پہنچا دو یہ کہہ کر میں اپنے کمرےچلا گیا کچھ تھکاوٹ محسوس کررہا تھا اسلیے چائے کا کہہ دیا تھا میں موبائل نکال کر ایک دو ضروری کال تھیں وہ کرنے بیٹھ گیا دس پندرہ منٹ گزر گئے نا بیگم آئی اور نا چاے تو میں نے اونچی آواز میں کہا کہ بیگم چائے کا کہا تھا تو بیگم کی آواز آئی بس لے کے آرہی ہوں۔

میں نے پھر خود کو فون میں مصروف کر لیا دس منٹ اور گزر گئے میں جنجھلا کر اٹھا اور کمرے سے باہر آکر کچن کی طرف دیکھا کچن کی لائٹ آف تھی میں نے بیگم کو آواز دی ۔۔۔۔۔بیگم ۔۔۔۔۔۔۔بیگم ۔۔۔۔۔۔بیگم۔۔۔۔۔۔۔مگر ہرسو خاموشی تھی کچن کی لائٹ آف دیکھ کر میں سمجھ گیا کسی بچے کے کمرے میں ہو گی۔

نیچے تینوں بیڈ روم کے دروازے بند تھے میں نے ایک ایک کر کے سارے دروازے کھولے کمروں کی لائٹ آف تھی میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والے پورشن چلا گیا مگر یہاں بھی اندھیرے نے استقبال کیا میں حیران کہ سب کدھر چلے گئے جس بیٹی نے سلام کیا تھامیں نے اسے آواز دی مگر ہر سو خاموشی تھی میں سمجھ گیا کہ سب باہر لان میں ہونگے میں سیڑھیاں اتر کر باہر لان میں آگیا مگر لان خالی تھا میں نے موبائل فون سے بیگم کا نمبر ملایا کال اٹینڈ ہوتے اس کی سلام کی آواز آئی میں نے پھٹ پڑنے والے لہجے میں کہا کہ کہاں ہوتم تمہیں چائے کا کہا تھا

چائے بناتے بناتے کہاں چلی گئی ہو آگے سے بیگم کی حیرانی بھری آواز آئی کہ آپ کو صبح بتایا تھا کہ آج ظہور بھائی کے ہاں ڈنر ہے اور آپ نے بھی ادھر ہی تو آنا تھا ۔ اس کی بات سن کر میں نے غصے سے کہا کہ یہ کیا بے ہودہ مذاق ہے ابھی اقصیٰ نے مجھے سلام کیا ہے میری تم سے کچن میں بات ہوئی ہے ۔

آگے سے بیگم نے حیرانی سے کہا کہ خیر تو ہے ہم تو دوپہر کے فوراً بعد سے ظہور بھائی کے گھر آئے ہوے ہیں میں نے حیرانی سے اس کی بات سنی اورکہا کہ ابھی تو تم یہاں تھیں اور اقصیٰٰ بھی یہاں تھی ۔میری بیگم نے کہا آپ رکیں ہم ابھی آتے ہیں اور کال کاٹ دی ۔

یہ سب کیا تھا مجھے یقین نہیں آرہا تھا میں نے جاگتی آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا میں نے بیگم کو کچن سے بولتے سنا تھا ۔ میرا دل کیا کہ اندر ہال میں جا کر دوبارہ دیکھوں مگر ہمت ناہو رہی تھی مجھے عجیب سے خوف کا احساس ہوا میں لان میں پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر تک میرے بیوی بچے سب آگئے انکے ہمراہ میرا یہ بھائی ظہور بھی تھا ہم ہال میں جا بیٹھے میں یقین و بے یقینی کی سی حالت میں سب کو بتا رہا تھا مگر کوئی میری بات تسلیم کرنے کو تیار نا تھا میری بیگم بولی اچھا شائد آپ تھک گئے ہیں آپ سو جائیں ان سب کی باتیں سن سن کر مجھے بھی یقین ہو چلا تھا کہ شائد یہ سب میرا وہم تھا مگر جاگتی آنکھوں سے اتنا واضح وہم کیسے ممکن ہے ۔

خیر اس واقعہ کے بعد سب نارمل ہو گیا کچھ دن بعد بیگم سٹور کسی کام گئی اور گھبرا کر باہر نکل آئی بقول اس کے سٹور میں گھٹنوں میں سر دیے ایک بوڑھی عورت بیٹھی ہے بڑا بیٹا گھر تھا وہ سٹور گیا مگر سٹور میں کوئی نا تھا میں آفس تھا اس وقت مجھے بیٹے کی کال آئی میں گھر پہنچا بیگم قسمیں اٹھا رہی تھی کہ اس نے وہ عورت دیکھی ہے ۔ہم سب حیران تھے خیر کچھ دن اور گزر گئے

میرا بیٹا جس کی شادی ہوئی ہے وہ ایک رات دیر سے گھر آیا اس کی بیوی اپنے میکے تھی وہ کہتا ہے جب میں اپنے کمرے میں جا کر بیڈ ہر بیٹھنےلگا تو اسے اس کی بیوی کی آواز آئی کہ آ گئے ہیں تو اس نے بے ساختہ کہا ہاں جی اور چونک کر ادھر ادھر دیکھا مگر کمرہ خالی تھا وہ بھاگتا ہوا نیچے ہمارے بیڈ روم آیا میں سو رہا تھا اس نے اپنی ماں کو بتایا تو اس کی ماں نے مجھے اٹھا کر ساری بات بتائی میں سرپکڑ کر بیٹھ گیا کہ یہ کیا میرے گھر میں شروع ہوگیا ہے۔

اگلے دن ایک کولیگ سے مشورہ کر کے اس کے جاننے والے ایک عامل کے پاس گئے اس نے حساب کیا اور بتایا کہ آپ پر تعویذ ہیں اور تعویذوں کے طابع مخلوق آپ کے گھر آپ کو تنگ کر رہی ہے یہ سب اسی کی وجہ سے ہو رہا ہے اس عامل صاحب کی بات سن کر میری پریشانی مزید بڑھ گئی میں نے پوچھا کہ اب اس کا حل کیا ہے تو عامل صاحب نے کہا کہ مجھے کل آپ اپنے گھر لے جاو ۔

اگلے دن میں اہنے کولیگ کے ساتھ جا کر عامل صاحب کو گھر لے آیا عامل صاحب نے پورے گھر میں گھوم کر دیکھا اور بولےپورا گھر آسیب سے بھرا پڑا ہے میں گھر ابھی صاف کیے دیتا ہوں اور سب کو جلا دیتا ہوں عامل صاحب ہال کمرے میں آلتی پالتی مار کربیٹھ گئے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگے ۔


میں میرا کولیگ اور میرا بڑا بیٹا ساتھ پڑے صوفے پر بیٹھ گئے عامل صاحب کو پڑھتے کوئی دس منٹ ہوے ہونگے کے ہال میں ایک ذناٹے دار تھپڑ کی آواز گونجی آواز تو ذوردار تھی ہی شاید عامل صاحب کے چہرےپر پڑنے والا تھپڑ بھی بہت ذوردار تھا آواز سنتے ہی میں نے عامل صاحب کو دیکھا جو ایک ہاتھ گال پر اور دوسرا ہاتھ ذمین پہ ٹکاے پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اسی اثنا میں ایک اور تھپڑ کی آواز آئی جوپہلے سے بھی تیز تھی عامل صاحب کے دوسرے گال پر بھی تھپڑ پڑا تھا تھپڑ کی آواز کے ساتھ ہی عامل صاحب کےمنہ سے درد بھری اونچی آہ نکلی اور اس کے ساتھ ہی وہ اٹھ کر ہال کے دروازے کی طرف بھاگے

ابھی وہ چار پانچ قدم بھاگے ہونگے کہ ایک اور ذور دار تھپڑ کی آواز گونجی اس کے ساتھ ہی عامل صاحب منہ کے بل زمین پہ جا گرے اور گرتے ہی اٹھ بیٹھے اور دونوں ہاتھوں سے اپنی کمر مسلنے کی ناکام کوشش کرنے لگے ہم تینوں جو حیرانی سے یہ سب دیکھ رہے تھے اٹھ کر عامل صاحب کی طرف لپکے میں نے عامل صاحب کو اٹھایا وہ بے چارے درد سے لوٹ پوٹ ہوتے ہوے
خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔

تھپڑ مارنے والہ نظر نا آرہا تھا
میں خود حیران تھا کہ یہ سب کیا ہوا ہے عامل صاحب کے دونوں گال لال گلاب بنے کھڑے تھے عامل صاحب نے کمر سے کپڑا اٹھایا وہاں نیلاہٹ بھرا نشان چھپا کھڑا تھا عامل صاحب نے کھڑےہوتےہی باہر کی طرف دوڑ لگا دی ہم تینوں وہیں کھڑے رہ گئے عجیب سا خوف مجھ پہ طاری ہو رہا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے ادھر ادھرنگاہ دوڑائی اور باہر نکل کر گیٹ کی طرف بھاگا مگر عامل صاحب گیٹ کراس کر چکے تھے میں جب گھر سے باہر نکلا عامل صاحب دوڑتے دوڑتے کافی دور جا چکے تھے میں نے ان کے پیچھے بھاگنے کا ارادہ ترک کر دیا اتنی دیر میں میرا کولیگ اور بیٹا بھی باہر آگئے تھے شاید ہم تینوں سچویشن سمجھ چکے تھے

میرے کولیگ نے باہر نکلتے ہی مجھے کہا منظور بھائی اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ آپ کے گھر آسیب ہے شاید اس عامل صاحب کے بس کا کام نا تھا ہمیں کوئی اور بندہ ڈھونڈنا پڑے گا ۔ میں نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دیا میرا بیٹا جو اب تک چپ کھڑا تھا بولا کہ ابو انکل کی بات ٹھیک ہے اور اس واقعہ کا ذکر گھر والوں سے نا کیجیے گانہیں تو گھر والے مزید خوف میں مبتلا ہو جائیں گے ۔

میری آواز بند تھی انجانے سے خوف نے میرا گلا خشک کر دیا تھا ۔ میرے کولیگ نے اجاذت چاہی اور اپنے گھر روانہ ہو گیا ۔ میں اور میرا بیٹا واپس ہال میں آگئے باقی گھر والے جو اس وقت اوپری پورشن میں بیٹے کے بیڈ روم میں بیٹھے تھے انکو نیچے بلا لیا بیگم نے آتے ہی پوچھا کہ کیا بنا ہو گیا مسلہ حل ؟

میرے بولنے سے پہلے میرا بیٹا بول پڑا کہ جی ہاں عامل صاحب نے پڑھائی کر دی ہے آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جاے گا ۔

میں نے کہا کہ اب جب تک سب ٹھیک نہیں ہوتا سب ساتھ ساتھ رہیں اور نیچےہی سویا کریں بات کرتے کرتے میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں کہاں جاوں اس مسلے کو کس طرح حل کروں ۔ وہ سارا دن میں اپ سٹ رہا دفتر سے چھٹی لی ہوئی تھی ظہور کو کال کر کے بلوا لیا تھا۔

اکیلے میں اسے ساری بات بتائی اس نے ایک عامل صاحب جو کہ دور ایک دیہات میں رہتے تھے ان کے پاس جانے کا مشورہ دیا شام کو ہم دونوں بھائی اس عامل صاحب کے پاس چلے گئے انکو سارا مسلہ بتایا انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور کچھ پڑھنا شروع کر دیا تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول کر بولے تمھارے گھر تعویذوں سے بد روحیں بھیجی گئی ہیں جنہوں نے ایک ایک کر کے تم سب کو مار ڈالنا ہے یہ سن کر میرے تو طوطے اُڑ گئے۔

میں نے پریشانی سے پوچھا اب کیا حل ہے تو وہ صاحب بولے کہ مجھے آپ کے گھر جا کر پڑھنا ہوگا ۔ ظہور نے عامل صاحب کی بات کاٹتے ہوے کہا کہ آج جو عامل صاحب آئے تھے ان کے ساتھ یہ یہ ماجرا ہوا ہے ظہور کی بات سنتے ہی عامل صاحب جلدی سے بولے نہیں پھر میں یہیں بیٹھ کر اس کا حل کرلونگا۔

عامل صاحب شرمندہ سے ہوتے ہوے بولے میں تعویذ دے دیتا ہوں سب گھر والے پی لیں اور کل اور تعویذ لے جائیں اور گھر باندھ دیں ۔ ہم تعویذ لے کر گھر آگئے تعویذ ایک جگ میں بھگو دیا اور میری بیگم نے سب کو پانی پلایا اگلے دن دوبارہ عامل صاحب کے پاس پہنچے انہوں نے ایک تعویذ دیا کے اسے چمڑے میں بند کروا کے گھر میں کسی جگہ باندھ دیں سب بد روحیں بھاگ جائیں گی ہم نے وہ تعویذ عامل صاحب کی ہدائت کے مطابق چمڑے میں بندکروا کے گھر باندھ دیا۔

اس رات میں نے خواب دیکھا کہ کوئی عورت میرے سرہانے کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ کیچڑ سے بھرےہیں اور وہ ان ہاتھوں سے میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی ہے میری آنکھ کھل گئی خوف کے مارے میرا حلق خشک ہو رہا تھا۔

میں نے بیگم کو آواز دے کر اٹھایا اور اسےپانی لانے کو کہا وہ بھاگ کرپانی لائی اور لائٹ آن کر دی میری طرف پانی کا گلاس کرتے ہوے میرے بالوں۔کو دیکھ کر حیرانی سےبولی یہ آپ کے بالوں میں مٹی سی کہاں سے آئی میں نے چونک کر بالوں کو ہاتھ لگایا میرے ہاتھوں کو گیلی مٹی کا احساس ہوا میں جلدی سے بیڈ سے اتر کر شیشے کے سامنے جا کھڑا ہوا میری حیرت کی انتہا نا رہی میرے بالوں میں کیچڑ جیسی گار لگی تھی ۔

میں جلدی سے واش روم گھس گیا سر دھو کر واپس آیا اور بیگم کو اپنا خواب سنایا جسے سن کر وہ خوف اور پریشانی میں مبتلاہو گئی۔

اگلی صبح دفتر سے اور چھٹی لی اور اسی عامل صاحب کے پاس ہم دونوں بھائی چلےگئے ساری بات سن کر عامل صاحب نے اس کام سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ میرے بس کا روگ نہیں آپ کسی اور کےپاس جائیں غرض اس دن کے بعد سے بلاناغہ کچھ نا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے کبھی واش روم کے تولیے کیچڑ میں بھرے ملتے ہیں کبھی کوئی بچی ڈر جاتی ہے۔

جس کسی عامل کا سنتےہیں وہاں بھاگ پڑتے ہیں کوئی تعویذ جادو کہہ دیتا ہے کوئی کہتا ہے پلاٹ پہ بھوتوں جنوں کی رہائش تھی آپ نے اس پر مکان بنا دیا اب مکان چھوڑو گے تو جان چھوٹے گی مگر مسلہ جوں کا توں ہی ہے مجھے روز بروز کمزوری کا احساس ہوتا جارہا ہے کچھ دن سے بیگم بہت بیمار ہو گئی ہے۔

سب ٹیسٹ کلیئر آئے ہیں مگر اسکی ٹانگوں اور کمر کا درد ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہم نے یہ سب واقعات ہر کسی سے چھپا کے رکھے تھے اس دن میری بڑی بہن بیگم کا سن کر اس کی عیادت کیلیے آئی ہیں وہ رات کو سوئی ہوئی تھیں رات کو انکی آنکھ کھلی کمرے میں نیم اندھیرا تھا انکو لگا کہ انکے سامنے پڑے صوفے پر کوئی عورت بیٹھی ہے انہوں نے پوچھا کہ کون ہو کون ہو۔

مگر وہ عورت نا بولی انہوں نے اٹھ کر لائٹ جلائی مگر صوفہ خالی تھا صبح ان کے کمرے میں۔میری بیٹی گئی توانہوں نے ہنستے ہوے سرسری سا تذدکرہ کیا کہ رات تو میں ڈر ہی گئی اور ساری بات سنائی۔

بات سنتے ہی میری بیٹی نے انکو اس گھر میں رونما ہوے سارے واقعات سنا دئیے جسے سن کر وہ سیدھا میرے پاس آئیں اور برہم ہونے لگیں کہ بہن بھائیوں سے اس طرح کی باتیں نہیں چھپایا کرتے اور بدر بھائی آپ کا ذکر کیا میں نے اسی وقت بہنوئی صاحب کو کال کر کے آپ کا نمبر لیا اور آپ سے بات کی اور اب آپ یہاں ہیں یہ ایک مختصر حال ہے ۔

یہ کہ کر منظور صاحب خاموش ہوگئے ۔میں جو چائے پیتے ساری بات توجہ سے سن رہا تھا چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور خالی کپ بنچ کے اوپر رکھ کر کھڑا ہو گیا اور بولا چلیں اب چلتے ہیں ظہور صاحب چائے کا بل دینے کیلیے اسٹال کی طرف بڑھے مگر اسٹال والا سٹال میں موجود نا تھا وہ بولے اب بل کےپیسے یہاں رکھ دوں میں نے کہا کل جب جانے لگوں گا تب آپ نے چھوڑنے آنا ہے تو کل دے دیجیے گا اب چلیں دیر نا کریں


اگلے دن شام کے وقت میں ظہور اور منظور صاحب کے ساتھ ٹرین کے انتظار میں کھڑا تھا منظور صاحب بہت خوش تھے ان کے گھر سے وہ نحوست ختم ہو گئی تھی جاتے جاتے اس جننی نے کرسی مجھ پر پھینکنے کی کوشش بھی کی تھی جو کہ ناکام رہی تھی

آپ کے ذہن میں پیدا شدہ سوال کا جواب دے دیتا ہوں منظور صاحب پہ نا کوئی جادو تھا نا تعویذ تھے اور نا ہی وہ پلاٹ آسیبی تھا جہاں انہوں نے گھر بنایا تھا ۔ اس شام جس شادی پر منظور صاحب گئے تھے وہاں بارات کا انتظام ایک اسکول میں کیا گیا تھا دوست کی بیٹی کی شادی سمجھتے ہوے منظور صاحب انتظامیہ میں شامل ہوگئے تھے وہ کھانا جو باراتیوں کی پلیٹوں میں بچ گیا تھا منظور صاحب نے اس سکول سے ملحقہ ایک ویران جگہ پر پھینکوا دیا تھا۔

اور وہ جگہ آسیبی تھی جس وقت منظور صاحب وہ کھانا وہاں ہھینکوانے گئے تھے وہاں پر ایک جننی کو وہ پسند آگئے اور وہ انکے جسم کی خوشبو پہ فداہو گئی اور جب وہ واپس لوٹے تو وہ بھی ساتھ ہی آئی اس کے بعد آہستہ آہستہ اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کر دیا اللہ پاک کا خاص کرم ہوا تھا مجھ پر اور میں اس بار بھی کامیاب ہوا تھا مجھے ایک دن پہلے منظور صاحب نے کال کی تھی بتایا تھا کہ انکے گھر تعویذوں کی وجہ سے بہت پریشانی ہے اور اپنے پاس آنے کو کہا تھا کچھ دیر بعد انکے بہنوئی جو کہ میرے اچھے تعلق والے ہیں انکا بھی فون آگیا اور میں اب یہاں آیا تھا۔


مگر جو میں سمجھ رہا تھا یہ وہ مسلہ نہیں تھا یہ معاملہ بہت خطرناک اور گھمبیر تھا مجھے دوران سفر بھی آگاہ کیا گیا تھا کہ یہ مسلا بڑی احتیاط سے سلجھانے والا ہے اور جب یہ دونوں بھائی اسٹیشن کے اندر داخل ہو رہے تھے تو انکے پیچھے کسی غیر مرئی مخلوق کی جھلک میں نے پالی تھی۔

ٹرین آچکی تھی ظہور اورمنظور صاحب دونوں بڑی گرم جوشی سے مجھ سے بغل گیر ہوے میں اپنی سیٹ پر جو کہ شیشے والی سائڈ پے ہی تھی پر آکر بیٹھ گیا تھا کھڑکی کے باہر میرے پاس ہی دونوں بھائی محبت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔


ٹرین نے وسل دی میں نے کہا رات والی چاے میری طرف سے تھی ظہور صاحب بولے نہیں جناب میں ابھی اسے جا کر بل ادا کرتا ہوں میں نے کہا کہ جناب اگر آپکو چاے کا سٹال یا چاے والا نظر آے تو لازمی بل ادا کر دیجیے گا دونوں بھائیوں نے سٹال کی سمت دیکھا سٹال وہاں ہوتا تو انکو نظر آتا وہ تو خدا کا شکر ہے کے میرے پیار کرنے والوں نے اپنا ایک ساتھی چاے کے سٹال سمیت وہاں پر کھڑا کر دیا تھا جس کی موجودگی کی وجہ سے وہ عفریت آگے نا آئی اور منظور صاحب کے گھر بھی اسی اسٹال والے نے اسے قابو رکھا اور مجھے مکمل پڑھنے اور حصار کرنے کا موقع مل گیا ہلکے سے جھٹکے کے بعد ٹرین چل پڑی تھی دونوں بھائی حیرانی سے ہاتھ ہلاتے پیچھے رہ گئے تھے ۔


بہت جلد ایک نئی آپ بیتی کے ساتھ حاضرہووں گا
آپ سب کیلیے بہت ساری دعائیں ۔
خوش رہیں دعاکی درخواست ہے ۔

کاپی پیسٹ۔