لاہور میں آپ سمن آباد موڑ سے چوک یتیم خانہ کو جائیں تو درمیان میں نواں کوٹ کے علاقے میں ایک جگہ آئے گی جو *بھلہ سٹاپ* کے نام سے موسوم ہے۔ 80 کی دہائی میں میرے ایک دوست نے اس علاقے میں ایک سکول بنایا۔
میں ملنے گیا تو میں نے پوچھا کہ بھائی یہاں کے دہی بھلے امید ہے بہت لذیذ ہونگے اسی لئے شاید اس جگہ کا نام بھلہ سٹاپ ہے۔ ہنس کر کہنے لگا۔
بھلہ سٹاپ کیوں اس کا نام ہے یہ تو مجھے نہیں پتہ مگر یہاں دور دور تک دہی بھلے تو کیا اچھی دہی بھی نہیں ملتی۔ شاید آج بھی بہت سے لوگ جو بھلے کی شخصیت سے واقف نہیں اس سٹاپ کے بارے میں اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
1947 میں پاکستان بننے سے قبل *بھلہ* لاہور کی ایک معروف شخصیت تھا۔ اس کا پورا نام *لالہ دھنی رام بھلہ* تھا۔ نیلا گنبد سے آپ انارکلی جائیں تو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی دیوار کے ساتھ انارکلی کے متوازی ایک چھوٹی سڑک جاتی ہے جو میو ہسپتال کے گیٹ سے مڑتی ہوئی انارکلی کو ملتی ہے۔ اس سڑک کا نام *دھنی رام روڈ ہے جو بھلے کے اصل نام سے موسوم ہے۔
* اس سڑک پر کسی زمانے میں لاہور کی بڑی کراکری مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ کالجوں میں جب کبھی طلبا میں بلیزر (کالج کے مخصوص رنگ کا کوٹ) پہننے کا رواج تھا، کوٹ کے لئے بیج بنانے والے اسی سڑک پر موجود تھے۔ بھلے کا کاروبار تو انارکلی میں تھا مگر اس کی رہائش گاہ نواں کوٹ کے علاقے میں *فرینڈز کالونی* میں تھی۔ اسی حوالے سے نواں کوٹ کا وہ حصہ *بھلہ سٹاپ* کہلاتا ہے۔
بھلہ، موجودہ بھارت کے *ضلع ہوشیارپور* کے ایک *قصبے بجواڑہ* کا رہنے والا تھا۔ کاروبار کے سلسلے میں وہ ایک بڑے شہر لاہور میں سیٹل ہو گیا۔ وہ بڑا لبرل ہندو تھا جس کے بارے مشہور تھا
کہ اس کا مطالعہ نہ صرف ویدوں اور شاستروں کے بارے تھا بلکہ وہ قران حکیم، بائبل اور گرو گرنتھ کے بارے بھی وسیع علم رکھتا تھا۔
1947 سے پہلے ہندو چمڑے کا کاروبار نہیں کرتے تھے۔ اس لئے کہ، چمڑے کے بننے میں جانوروں کی کھال استعمال ہوتی تھی اور سب سے زیادہ کھالیں گائے کی ہوتی تھیں اور ہندو اپنی مقدس گؤ ماتا کی وجہ سے اس کاروبار کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں
بھلہ پہلا ہندو شخص تھا جس نے چمڑے اور جوتوں کے کام کی ابتدا کی۔ بھلے کے اس کاروبار شروع کرنے پر کچھ متعصب ہندوؤں نے شور بھی مچایا مگر بھلے نے پوری دلجمعی، ایمانداری اور اچھے حسن سلوک سے اس کاروبار کو چلایاجس سے اس کا کاروبار پورے ہندستان میں پھیل گیا۔ کہتے ہیں *مولانا ظفر علی خان* ایک دفعہ بھلے کی دکان پر آئے اور انہوں نے بھلے کی فرمائش پر اس کی دکان کے بارے پنجابی میں ایک فی البدیہہ شعر کہا:-
وچ بازار انارکلی دے اوچی ہٹی بھلے دی بامن ہو کے جوتیاں ویچے مت ماری گئی بھلے دی
*بھلے کی دکان* اپنے وقت میں لاہور کی چند بہترین دکانوں میں شمار ہوتی تھی جہاں سے مسلمان، ہندو اور سکھ سبھی اپنی پسند کے بوٹ خریدتے تھے۔ شاید اس زمانے میں کاروبار کی نشر و اشاعت کے لئے شاعری کا سہارا لیا جاتا تھا۔ اس لئے بھلے کی دکان کے بارے بہت سے شعر نظر آئیں گے۔
حتیٰ کہ ہندو بھلے کو برا بھلہ کہنے کے لئے بھی شعروں کی زبان ہی میں بات کرتے تھے۔اپنے وقت میں بھلہ اپنے وسیع کاروبار کے سبب ہندستان کا ایک نامور سپوت تھا۔ ایک دفعہ ہندستان کے دو بڑے لیڈر ایم کے گاندھی اور رابندرناتھ ٹیگور ملتان روڈ کے بھلہ سٹاپ پر فرینڈز کالونی میں *بھلہ گھر* آئے تو ان کی خواہش پر بھلہ نے اپنے گھر کے وسیع لان میں پیپل اور آم کے پیڑ لگوائے تھے۔
کہتے ہیں کہ بھلے کی دکان کے سامنے ایک دیو قامت جوتا پڑا ہوتا تھا جس پر درج تھا کہ جس شخص کے پاؤں میں یہ جوتا آ جائے وہ اسے پہن کر مفت لے جا سکتا ہے۔بھلے کی دکان پر بورڈ اور ساری چیزیں پیلے رنگ کی تھیں اس حوالے سے یہ بھلے کی بسنتی ہٹی بھی کہلاتی تھی۔
شہر لاہور بسنتی ہٹی مال عمدہ تے قیمت مٹھی
بوہتی وکری تھوڑی کھٹی
اک واری تے آزماؤ جی
تسیں بوٹ بھلے دا پاؤجی
بھلہ ایک انتہائی مخیر آدمی تھا۔ وہ کئی خیراتی اداروں کا ٹرسٹی بھی تھا۔اس زمانے میں اس نے ساٹھ ہزار کی خطیر رقم سے ویدک لٹریچر اور تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے لئے ایک آشرم بنوایا تھا
جہاں اس حوالے سے ایک بہترین لائبریری بھی تھی اور اس لائبریری سے استفادہ کرنے والوں کے لئے مفت رہائش کا بندوبست بھی۔ *لاہور میں بھلے کا ایک کزن مہاتما ہنس راج DAV کالج جو آج اسلامیہ کالج سول لائنز ہے کا پچیس سال پرنسپل رہا*۔
ہنس راج کے کہنے پر ہی بھلے نے چمڑے کا کام شروع کیا تھا۔ 1917 میں بھلے نے DAV کالج کے احاطے میں ہی *ویدک ریسرچ* کا وہ ادارہ قائم کیا تھا۔ یہ ادارہ بعد میں بھلے کی ذاتی ملکیت ہوشیار پور کی ایک بڑی حویلی میں منتقل ہو گیا۔ آج یہ ادارہ ویدک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہوشیارپور دنیا بھر میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں بھی بھلے کا کردار تھا۔
1919 میں جلیانوالا واقع کے بعد جب لاہور میں مارشل لا لگا اور دس ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے تو ان میں بھلہ بھی شامل تھا، اس نے پچاس دن جیل میں گزارے۔ 1947 میں تقسیم کے وقت بھلہ بھارت چلا گیا مگر لاہور کی جدائی برداشت نہ کرنے کے سبب 1950 میں انتقال کر گیا۔