ایسٹر آئی لینڈ
"ہماری تاریخ میں کچھ تو گڑبڑ ضرور ہے۔۔ اہرام مصر کے بعد مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ "حیران و پریشان" کیا ہے وہ ہے، ایسٹر آئی لینڈ ۔ ٹیکنالوجی اور ساٸنس کا جب کوٸی نام و نشان نہیں تھا۔
دور دور کوٸی علاقہ بھی نہیں تھا وہاں سے کوٸی "اوزار" نہیں ملے، لوگ کہاں سے آٸے تھے، اور کہاں چلے گٸے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
ایک طرف سائنس کہتی ہے، کہ دنیا میں "انسان" کا قد ہمیشہ سے یہی پانچ یا چھ فٹ ہی رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر آپ اہرام مصر اور ایسٹر آٸی لینڈ کے بارے میں "گہرائی" سے پڑھ لیں۔
تو بندہ فکر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوجاتا ہے۔کیونکہ یہ چیزیں تو اب بھی موجود ہیں۔ زیادہ تر دوست Easter Island کے بارے میں شاید نہیں جانتے ہوں گے۔
سو ان کی رہنمائی کے لیے بتاتا چلوں کہ ایسٹر آئی لینڈ دنیا کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر تراشے گٸے پتھروں کے بڑے بڑے اور عظیم مجسمے موجود ہیں۔
اب یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ اتنے مجسمے کیسے بنائے گٸے۔ بل کہ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ اس "ایسٹر آئی لینڈ" کے اس پاس ایسا کچھ بھی موجود نہیں، کہ ہم اس طرف توجہ مرکوز کریں۔
یہ بھی پڑھیں
یعنی اگر یوں کہا جائے کہ یہ دنیا کی تنہا ترین جگہ ہے، تو ہرگز غلط نہیں ہوگا کیوں کہ یہاں سے قریب ترین جزیرہ تقریبا 2000 کلومیٹر دوری پر ہے۔
میں پھر سے دہراتا چلوں ”دو ہزار کلومیٹر“۔اسکے بعد ہم ہرگز یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ یہاں یہ تراشے ہوئے پتھر کہاں سے لائے گٸے ہونگے کیونکہ یہ فاصلہ ہمارے پاکستان سے دوبٸی تک بنتا ہے۔
اسکے علاوہ "آثار قدیمہ" والوں کو آس پاس زیر سمندر بھی ایسا کچھ نہیں ملا، جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ یہاں کچھ لوگ ایسے آباد تھے،جوکہ بہت ہی طاقتور ہوا کرتے تھے کیوں کہ یہ تراشے ہوئے پتھر بہت وزنی ہیں۔
ایک ایک پتھر کا وزن 200 ،250،255، 270 ٹن ہے۔۔۔یعنی عام گاڑیوں سے ان پتھروں کا وزن زیادہ ہے۔
یہ پتھر آج بھی موجود ہیں۔ لوگ ان کو دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے، کہ یہاں ایسے تراشے ہوۓ پتھروں کی تعداد چار سو کے قریب ہے نیچے تصویر میں آپ ایک سیمپل دیکھ سکتے ہیں۔
اب بھی لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان پتھروں کو ہلا ئیں لیکن ایک بندہ تو کیا دس 10 لوگ مل کر بھی ان پتھروں کو نہیں ہلاسکتے کیونکہ یہ بہت ہی وزنی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
پھر انکو اس قدر خوبصورت طریقے سے تراشنا، پرفیکٹ طریقے سے لگانا اور وہ بھی ٹیکنالوجی کے بغیر عام انسانوں کا کام ہرگز نہیں ہے۔
آثار قدیمہ والوں کا کہنا ہے،، کہ "Easter Island" میں رہنے والوں کے پاس کوئی کرین، پہیہ یا مشینری وغیرہ نہیں تھی اس کے علاوہ وہاں ہاتھی بھی نہیں تھے، اور نہ ہی یہ پتھر ہاتھی اٹھا سکتے ہیں۔۔
یعنی ان تراشے ہوئے پتھروں کو بنانے کا،انکو لے جانے کا اور انکو صحیح جگہ پر کھڑا کرنے کا تمام تر کام انسانی زور بازو سے ہی انجام پایا ہے۔لیکن کیا وہ عام انسان تھے؟
اسکا فیصلہ آپ پتھر کو دیکھ کر کرسکتے ہیں۔ یعنی دنیا میں بعض راز ایسے بھی ہیں،جن کے بارے میں ہم صحیح طور سے نہیں جانتے۔ اس جزیرے کو پہلی بار 1722 میں دریافت کیا گیا۔
اس جزیرے کو جب پہلی بار انگلش ریسرچ ٹیم نے دیکھا، تو دیکھتے ہی سب دنگ رہ گٸے، کیونکہ تن تنہا Island میں 400 کے قریب اتنے بڑے بڑے پھتر تراش کر بنانا، اور پھر ان کو لگانا یقینا حیران کر دینے والی بات تھی۔
پہلی بار یہاں جب ریسرچ ٹیم آئی، تو وہ لکھتے ہیں کہ ان تراشے ہوئے پتھروں کےمجسمے دیکھ کر ہم ہکا بکا رہ گئے، کیونکہ ان لوگوں کے پاس بھاری مشنری تو دور کی بات سادہ Simple مشن بھی نہیں تھی، تو انہوں نے اتنے بڑے مجسمے کیسے بنائے ہوں گے؟
اس کے متعلق کافی کہانياں مشہور ہیں لیکن حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں