بوڑھے میاں بیوی اور نیا کام
بیگم! اب جلدی بھی کر لو، کہیں تمہاری کاہلی ہماری یہ نوکری بھی نا گنوا دے۔
ہاشم اور اُس کی بیوی ماریہ دونوں کب کے جوانی کی حدُود کو پار کر کے بُڑھاپے میں قدم رکھ چُکے تھے۔
ہاشم تو نظر کی کمزوری کے باعث پہلے ہی بےروزگار تھا، اب تو ماریہ کی بوڑھی ہڈیاں بھی جواب دے رہی تھیں۔ ایک تو مفلسی اور دُوسرا بے اولادی کا ۔غم اُسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔
مگر ایک عام دن جو کافی خاص ثابت ہونے جا رہا تھا۔ اخبار میں بزُرگ میاں بیوی کے لیے نوکری کے اشتہار نے اُن کی بے رنگ زندگی کو بہار کر دیا تھا۔
دونوں بتائے گئے وقت پر مقررہ پتہ پر پہنچ گئے۔ ایک اڈھیر عمر ملازم انہیں ڈرائنگ روم میں لے گیا۔ کُچھ ہی دیر بعد ایک پینتالیس سالہ با وقار عورت وہاں پہنچیں۔
ہاشم اور ماریہ اتنا بڑا گھر اور وہاں کی شان و شوکت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ عورت رعب دار ہونے کے باوجود کافی پُرخلوص بھی تھی۔
اُس نے بہت احسن طریقے سے اُنہیں اُن کا کام سمجھایا اور دونوں کو اُن کے کمرے تک چھوڑ آئی۔
مزدوری کے اعتبار سے معاوضہ کافی اچھا تھا۔ اتنا بڑا گھر صرف تین لوگوں پر مشتمل تھا! مالکن، اُس کی جواں سالہ بیٹی اور ایک عدد ملازم۔ نئے گھر میں ماریہ کو سونے میں کافی دشواری آ رہی تھی اُوپر سے عجیب سی بدبُو نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔
ہاشم جو صبح سے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے لوازمات لانے میں تھک چُکا تھا اور اب خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ کافی دِن بِیت گئے،
روز نِت نئے مہمان چھوٹی بی بی کے رِشتے کے لیے آتے اور صبح تڑکے ہی گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ ماریہ بھی اب روز اُس آنے والی بدبُو کی عادی ہو چُکی تھی۔
وہ بھی رات کو جلدی ہی سو جاتی۔ ایک رات طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ خاصی بے چین رہی۔ پانی کی طلب اُسے رسوئی گھر تک لے گئی۔ وہاں کا منظر دیکھ اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
وہ خاموش قدموں سے اُلٹے پاؤں چلتی واپس اپنے کمرے کو آ پہنچی۔ ہاشم! ہاشم! اُٹھیں، میں نے کِچن میں ایک کٹی ہوئی لاش دیکھی ہے، جِس میں سے ابھی بھی خون رِس رہا ہے۔
یہ سُنتے ہی ہاشم بدحواسی کے عالم میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ دونوں دبے پاؤں کچن کی طرف بڑھے۔ مالکن اور ملازم کے کپڑے خون سے سَنے ہوئے تھے۔ وہ دونوں لاش کے کٹے ہوئے عضاء بوری میں بھر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں
بوری کو بھرنے کے بعد وہ اُسے پیچھے لان میں لے گئے جہاں مالکن کی بیٹی کھڈا کھودے کھڑی تھی۔ تینوں نے بڑی دلیری سے بوری کو ٹھکانے لگایا اور اپنے اپنے کمروں کی جانب چل دیے۔ ہاشم اور ماریہ خوف سے لرز رہے تھے۔ ماریہ کی نظر کچن پر ایک کٹی ہوئی اُنگلی پر پڑی جس میں وہی انگوٹھی تھی۔
جو اُس نے صبح مہمانوں کے ہمراہ آنے والی ایک عورت کے ہاتھ میں دیکھی تھی۔
انھوں نے اُسی وقت پولیس کو اطلاع کی پولیس نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے تینوں ملزمان کو حراست میں لے لیا۔
تفتیش کے دوران یہ راز فاش ہوا کہ یہ گروہ کافی عرصے سے انسانی عضاء کی تسکری کے جرم میں ملوس تھا۔
اُن کو پکڑوانے پر حکومت نے انہیں بیس لاکھ نقدی انعام سے نوازہ۔انعام میں ملنے والی رقم سے ہاشم نے پرچون کی دُکان ڈال لی اور دونوں اپنی بچی کُچی زندگی سکُون سے گُزارنے لگے۔