باراتیوں کی روٹی
ایک دن کسی تعلق والے کی شادی پہ جانے کا اتفاق ہوا بارات والے دن دلہن کے والد اور والدہ کچھ پریشان تھے پوچھنے پر معلوم ہوا کے اپنی اور اپنی بیگم کی سونے کی انگھوٹھی بیچنے کے باوجود بھی ہوٹل والوں کے پیسے پورے نہیں اس لیے پریشان ہیں۔
دلہن کی والدہ تنہائی میں جا کر رو لیتی کے وہ تحفہ جو میری شادی پر میرے خاوند نے مجھے دیا وہ مجھے آج مجبوراً سیل کرنا پڑا۔
خیر شادی ھال میں موجود کوئی الله کا بندہ ان کی باقی شدہ رقم مکمل کر کے شادی ھال کے مینجر کو دے دیتا ہے۔
کھانا کھانے کے لیے بہت پڑھی لکھی معزز شخصیات بھی کوٹ پینٹ پہنے ایک دوسرے سے بڑھ کر پلیٹ میں سالن چاول ڈالتے ہیں ہر اک کی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے میرا کھاتا مکمل ہو جائے یعنی میرا پیٹ بھر جائے تمام ھال میں اک عجیب سا شور ہے جیسے کوئی لوٹ مار ہو رہی ہو جیسے کوئی مال غنیمت جمع ہو رہا جیسے کسی کو کوئی خزانہ مل گیا ہو۔
ہر طرف پلیٹ گرنے اور ٹوٹنے کی آوازیں اور دوسری طرف وہ ماں باپ اپنی بیٹی کو جوان کر کے رخصت کر رہے ہیں اور ساتھ جہیز بارات کا کھانا بھی کن حالات میں دے رہے ہیں کسی کو کیا معلوم۔
اس دعوت کے پیسے جو بیٹی کو رخصت کرنے کی خوشی میں دی جا رہی ہے کس طرح جمع ہوۓ کسی کو کچھ خبر نہیں
ایک طرف سے آواز آ رہی ہے ویٹر چاول
ویٹر ٹیشو پانی ہر طرف سے مختلف آوازیں بلند ہو رہی ہیں
ہر اک کو بس اپنی اپنی ہے
یہ بھی پڑھیں
یوں کہو تو قیامت سا سماء ہے آہستہ آہستہ شور کم ہوتا کچھ لوگ کھانے کے بعد سیگریٹ کے اس طرح کش لگا رہے ہیں جیسے کوئی محاذ فتح کیا ہو۔
بہت سی پلیٹوں میں اضافی کھانا پڑا ہے جو اب کسی کے کام کا نہیں خیر اسطرح مُفت کی دعوت کا اختتام ہوتا ہے۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں وہ کون سی کتاب ہے جس میں لکھا ہے لڑکی یعنی دلہن کے ماں باپ بارات کو کھانا دے کر بیٹی کو رخصت کرے جو کھانا جہیز دیا جا رہا ہے اس کے پیچھے کتنی درد ناک کہانی ہے کسی نے کبھی سوچا؟
نہیں
بلکل بھی نہیں
ہم کبھی بھی نہیں سوچتے
وجہ ہم رسم و رواج اور زبان کے لوگ ہیں مگر کردار اور سوچ کے نہیں ان جھوٹے رسم و رواج کو اپنا کر ہم ڈستے ہیں کبھی خود کو تو کبھی دوسروں کو لیکن مل بیٹھ کر ہم یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہم خود اپنی ذات پہ اور دوسروں پہ کتنا ظلم کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ۔