داڑھی یا۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن یکایک ہماری کلاس یعنی ایم اے فائنل کے لڑکوں میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ ہمارے ایک منحنی سے ہم جماعت مولوی عبدالرحمن کو ایف اے کی طالبہ کی ٹیوشن مل گئی ہے۔
چرچا ٹیوشن کی وجہ سے نہ تھا بلکہ لڑکی کی وجہ سے کیوں کہ افواہ کی رو سے لڑکی حسین ہی نہ تھی ، فطین بھی تھی ۔
لڑکی کے کوائف سن کر مولوی عبدالرحمن کے ہم جماعت رشک اور حسد سے حسب توفیق لال پیلے اور نیلے ہونے لگے ۔
کئی ایک نے مولوی صاحب کی داڑھی کے متعلق ناروا سی باتیں بھی کیں اور درمیان میں ان جانوروں کا ذکر لے آئے جن کی تھوڑی کے نیچے بال ہوتے ہیں ۔
قسمت سے اصل شکایت تو یہ تھی کہ اس ٹیوشن کے لئے ہم کیوں نہ چنے گئے ۔ یعنی ہم کہ سرخ و سپید ، بانکے ، بے فکرے چھ فٹ قد کے جوان رعنا تھے ۔
لیکن مصیبت یہ ہے کہ قسمت قد ناپ کر نعمتیں تقسیم نہیں کرتی ۔
ہاں کبھی کبھی بے اے کے نمبر دیکھ لیتی ہے اور اس میں مولوی صاحب ہمیں کوئی دو سو نمبر پیچھے چھوڑ گئے تھے ۔
ایک دن سامنے سے آتے ہوئے مولوی عبدالرحمن ملے تو انہیں مبارک باد پیش کردی ۔
مولوی صاحب نے حسد کے طوفان میں مبارک باد کی آواز سنی تو ہمیں سینے سے لگا لیا ۔۔۔بولے :
" ساری کلاس میں ایک تم شریف لڑکے ہو "
میں نے کہا :
اور آپ شریف ہی نہیں ، قابل بھی ہیں ۔ یہ ٹیوشن آپ ہی کو ملنا چاہئے تھی ۔
ایک روز مولوی صاحب ذرا خلاف معمول پریشاں حال نظر آئے ۔ وجہ پوچھی تو بولے : گاؤں سے اطلاع آئی ہے کہ ماں بیمار ہے ۔ ماں کی عیادت بھی لازم ہے اور ٹیوشن میں ناغہ ہوا تو بیرسٹر صاحب کے ناراض ہونے کا بھی خوف ہے ۔ "
بیرسٹر صاحب کہتے ہیں کہ اگر جانا لازمی ہے تو اپنی جگہ کوئی موزوں آدمی دے کر جاو ۔ اب میں موزوں آدمی کہاں سے لاؤں ؟ "
مولانا بولے " بس ایک ہی صورت ہے "
مثلاً ؟
" مثلاً یہ کہ اگر آپ زحمت نہ سمجھیں تو دو روز میری جگہ پڑھا آئیں ۔ "
یہ تو وہی بات ہوئی کہ دعا منہہ سے نکلی نہیں اور اجابت نے دروازہ آ کھٹکھٹایا ۔
" میں نے بیرسٹر صاحب سے آپ کا ذکر کیا تھا ۔ وہ آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ آج شام میرے ساتھ چلئے گا ۔ "
شام بیرسٹر صاحب کے دولت کدے پر پہنچے ۔
بیرسٹر صاحب نے بظاہر تو مزاج پرسی کی ، لیکن حقیقت میں ہمارا معائنہ کرنے لگے جو طبی معائنے سے بہت کچھ ملتا جلتا تھا ۔
فرمایا : " لڑکا شریف ہی لگتا ہے ۔ "
پھر مولوی صاحب کو رخصت دے دی اور ہمیں سمیرا تک پہنچا آئے ۔
سمیرا ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں ، کیا فتنہ گر قد و گیسو تھی !
فرمائیں آپ کا سبق کس غزل پر ہے ؟
جواب میں سمیرا نے ایک غزل کے پہلے مصرعے پر انگلی رکھ دی لیکن منہہ سے کچھ نہ بولی ۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی ۔
" یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا "
میں نے کہا :
یہ تو بڑی لا جواب غزل ہے ۔ ذرا پڑھئے تو ۔
سمیرا نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچہ پڑھتا ہے ۔
" یہ نہ تھی ہماری قس مت کہ وصل ۔۔۔۔۔"
یہ بھی پڑھیں
میں نے ٹوک کر کہا :
" یہ وصل نہیں ، وصال ہے ۔ وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں ۔"
سمیرا نے اگلا مصرع پڑھا ۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا :
" اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا "
میں نےسمیرا کی دلجوئی کے لئے ذرا سرپرستانہ انداز میں کہا :
" شاباش ، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے "
" اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراؤں گی ۔ اس وقت ذرا شعر کے پورے معنی بتا دیں ۔ "
ہم نے سمیرا کا طنز برداشت کرتے ہوئےکہا :
مطلب صاف ہے ۔ غالب کہتا ہے ۔ قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا
چناچہ اب موت قریب ہے ، مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی ۔
" توبہ اللہ ، اتنا Lack of confidence یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھے ۔ "
ہم دوسرے روز پڑھانے گئے ۔ سبق تو دوسرے شعر سے بہت آگے نہ بڑھا لیکن باہمی مفاہمت میں خاصی پیش رفت ہوئی ۔
تیسرے روز مولوی صاحب آ گئے اور ہمیں دوستوں نے آ گھیرا کہ دو روزہ ٹیوشن کی روداد سناو۔
ہم کہانی سنا چکے تو ہماری کلاس کے ذہین مسخرے ، لطیف نے باقی لڑکوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
" دوستو خاموش اور ذرا توجہ سے سنئے : "
ساری کلاس خاموش ہو گئی ۔ لطیف نے بولنا جاری رکھا :
" میرا ستاروں کا علم کہتا ہے کہ اگلے سال ہمارے اس خوش نصیب ہم جماعت کی شادی ہو جائے گی ۔ ذرا بتاو تو سہی اس کی دلہن کا کیا نام ہو گا ؟ "
ساری جماعت نے یک زبان ہو کر کہا :
" سمیرا ! "
اس پر بے پناہ تالیاں بجیں ۔ لڑکوں نے مجھے کندھوں پر اٹھا لیا اور اودھم مچایا ۔
قارئین۔ کیا آپ کو بھی میرے ہم جماعتوں سے اتفاق ہے ؟
سنئے اگلے سال رضیہ سچ مچ دلہن تو بنی ، لیکن ہماری نہیں ، مولوی عبدالرحمن کی !
حادثہ یہ ہوا کہ ٹیوشن کے بعد مولوی عبدالرحمن اور ہم سی ایس پی کے مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئے اور مولوی صاحب ہمیں یہاں بھی دو سو نمبر پیچھے چھوڑ گئے ۔
اس کامیابی کے بعد ان کے لئے سمیرا سے شادی میں ایک ہی رکاوٹ تھی اور مولانا نے یہ رکاوٹ برضا و رغبت ، پہلے نائی کے ہاتھوں دور کرا دی ۔
برضا و رغبت اس لئے کہ بقول مولوی صاحب ، ایک دن انہوں نے کانی آنکھ سے سمیرا کو دیکھ لیا تھا اور پھر دل میں عہد کر لیا تھا کہ داڑھی کیا چیز ہے یہ لوح و قلم تیرے ہیں ۔
ادھر بیرسٹر صاحب تو مولوی عبدالرحمن کے نام کے ساتھ سی ایس پی دیکھ کر داڑھی کی قربانی پر بھی مصر نہ تھے ۔
رہے ہم تو جونہی مولوی صاحب اپنی دلہن کو لے کر ہنی مون پر روانہ ہوئے ، ہم دیوان غالب کھول کر ایک لا جواب غزل الاپنے لگے :
" یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصال یار ہوتا "