ہاتھی والے || Hathi Waly

GR SONS


ہاتھی والے




اگر آپ دنیا کے نقشہ پر نظر ڈالیں تو بحر احمر کی دائیں طرف یمن اور اس کے سامنے ہی بائیں طرف براعظم افریقہ کا ملک حبشہ واقع ہے

جس کو آج کل ایتھوپیا کہتے ہیں۔

یمن میں بنیادی طور پر بت پرستی اور ستارہ پرستی کا رواج تھا۔

ایک خاص واقعہ کے نتیجہ میں حبشہ نے یمن پر حملہ کر دیا جو مذہباً عیسائی تھے اور اس عرب ملک پر قابض ہوگئے اس طرح یہاں عیسائی مذہب کی خوب نشر و اشاعت ہوئی۔

شاہ حبش کی طرف سے ابرہہ نامی شخص کو یمن کا گورنر بنایا گیا

وہ ایک پُر جوش عیسائی تھا اور چاہتا تھا کہ اس خطہ میں عیسائیت کو بنیادی مذہب کی حیثیت حاصل ہو جائے۔

چنانچہ اس نے یمن کی راجدھانی صَنْعَاء میں قُلَّیْس نامی ایک شاہکار عمارت بنائی جو اپنی شان و شوکت سجاوٹ اور خوبصورتی کے اعتبار سے ایک مثالی عمارت تھی۔

جو دراصل اس کا چرچ تھا۔


یہ بھی پڑھیں


اس کا خیال تھا کہ عیسائیت کی اشاعت میں سب سے بڑی رکاوٹ مکہ میں بنی ہوئی عبادت گاہ " کعبہ " ہے اور عربوں کو اس میں ایسی کشش اور اس عمارت سے ایسا جذباتی لگاؤ ہے کہ وہ اس کے مقابلہ میں کسی اورعبادت گاہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔

اس نے شاہ حبشہ کو لکھا کہ میں نے آپ کے لئے ایک بے نظیر کلیسابنو ایا ہے میں کوشش کر رہا ہوں کہ عرب کے لوگ آئندہ خانہ کعبہ کو چھوڑ کر یہیں حج و طواف کیا کریں ۔

جب یہ خبر عرب میں مشہور ہو گئی تو بنی کِنانہ میں سے ایک شخص نے غصہ میں آکر اس کلیسا میں قضا حاجت کردی۔

تفتیش کی گئی تو معلوم ہواکہ یہ حرکت ان ہی لوگوں میں سے کسی نے کی ہے ، جو حج کے لئے کعبہ کو جایا کرتے ہیں۔

یہ دیکھ کر اَبْرَہَہ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے قسم کھائی کہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ نہ بجادوں تو میرانام اَبْرَہَہ نہیں ۔

اس وقت مکہ میں محض چند ہزار کی آبادی تھی لیکن ابرہہ نے اپنے پروگرام کو یقینی بنانے کے لئے ساٹھ ہزار کی فوج تیار کی جس میں بہت سے ہاتھی بھی تھے

اور ان کا پیش رَو ایک بڑے جسم والا کوہ پیکر ہاتھی تھا جس کا نام محمود تھا۔

ابرہہ جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچا تو اس نے اہلِ مکہ کے جانور قید کرلئے اور ان میں حضرت عبدالمطلب کے دو سو اونٹ بھی تھے ۔

یہ گویا اہل مکہ کو مرعوب کرنے کی ایک کوشش تھی وہ چاہتا تھا کہ بغیر جنگ کے اس کا مقصد حاصل ہوجائے اس لئے اس نے قبیلہ حِمْیَرْکے ایک شخص حُناطہ کو مکہ بھیجا اور اہل مکہ کو پیغام دیا کہ ہمارا ارادہ قتل وغارت گری کا نہیں ہے۔

ہم صرف کعبہ کو منہدم کرنا چاہتے ہیں اگر اہل مکہ ہمارے اس مقصد میں رکاوٹ نہیں بنیں تو ان کو کسی قسم کا جانی ومالی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

ابرہہ نے کہا تھا کہ سردار قوم کو بھی ساتھ لے کر آیا جائے چنانچہ حناطہ کی خواہش پر عبدالمطلب بھی ساتھ گئے حضرت عبدالمطلب لمبے قد و قامت کے خوبصورت اور وجیہ آدمی تھے۔

ابرہہ آپ کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور نیچے بیٹھانے کے بجائے خود نیچے اتر آیا اور دریافت کیاکہ آپ کیا چاہتے ہیں ؟

عبدالمطلب کا جواب بہت ہی خلاف توقع تھا انھوں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ میرے دوسو اونٹ جو آپ کے فوجیوں نے لوٹ لئے ہیں واپس کردیئے جائیں۔

ابرہہ نے کہا تم کو دیکھ کر میرے دل میں تمہاری جو وقعت قائم ہوئی تھی

یہ سن کر کم ہوگئی میں اس عمارت کو ڈھانے جارہاہوں جس کی وجہ سے پورے عرب میں تمہاری عزت قائم ہے اور تم نے اس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

عبدالمطلب نے کہا اونٹ کا مالک میں ہوں اس لئے میری ذمہ داری ہے کہ میں ان کو بچاؤں کعبہ جس کا گھر ہے وہ اس کوبچائے گا ۔

یہ سن کرابرہہ نے آپ کے اونٹ واپس کردیئے۔ حضرت عبدالمطلب نے واپس آ کر قریش کو صورتِ حال سے آگاہ کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ پہاڑوں کی گھاٹیوں اور چوٹیوں میں پناہ گزین ہو جائیں۔

چنانچہ قریش نے ایسا ہی کیا اور حضرت عبدالمطلب نے کعبہ کے دروازے پر پہنچ کر بارگاہِ الٰہی میں کعبہ کی حفاظت کی دعا کی اور دعا سے فارغ ہو کر آپ بھی اپنی قوم کی طرف چلے گئے ۔

ابرہہ نے صبح سویرے اپنے لشکر کو تیار ی کا حکم دیا تو اس وقت محمود نامی ہاتھی کی حالت یہ تھی کہ جب اسے کسی اور طرف چلاتے توچلتاتھا۔

لیکن جب کعبہ کی طرف اس کا رُخ کرتے تو وہ بیٹھ جاتا تھا۔

آخر چھوٹے چھوٹے پرندوں کا ایک غول سمندر کی طرف سے اُڑتا ہوا آپہنچا

یہ دراصل ہاتھیوں ، گھوڑوں ، اونٹوں اور انسانوں کی فوج کے مقابلہ خدا کی فوج تھی۔

ان کی چونچ اورپنجوں میں چنے یا مسور کے دانے کے برابر کنکریاں تھیں۔

انھوں نے کنکریاں برسانی شروع کردیں ، جن کو کنکری لگی ، ان میں سے بہت سارے تو ہلاک ہوگئے اور جولوگ جان بچاکر یمن واپس پہنچے ، ان کا بھی حال یہ ہواکہ پورے جسم پر زخم کے پھوڑے ہوگئے اوران زخموں نے جان لے کر ہی چھوڑا۔

خود ابرہہ کا حال یہ ہوا کہ زخم سے ایک ایک عضوخراب ہوتا گیا ، انگلیاں کٹ کٹ کر گرتی گئیں اور اچھا خاصا بہادر نوجوان بارُعب سردار جب یمن کو واپس آیا تو پتلا دبلا نحیف و ناتواں چوزہ کی طرح نظر آتا تھا۔

بالآخر اس کا سینہ پھٹ گیا اور موت ہوگئی ، اس طرح آخر رب کعبہ نے اپنے کعبہ کی حفاظت کی ۔

جس سال یہ واقعہ رونما ہوا اسی سال سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادت ہوئی۔

پرندوں کی فوج یمن ہی میں ابرہہ کی فوج کو ٹھکانے لگا سکتی تھی لیکن یہ واقعہ مکہ میں پیش آیا تاکہ اہل مکہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں او ر انھیں اللہ پر یقین ہوجائے ۔

فوج کے کچھ بچے کھچے لوگ اور خود ابرہہ یمن تک پہنچے اور وہاں جاکر ان کی موت ہوئی حالاں کہ یہ بھی ہوسکتا تھاکہ مکہ ہی میں سب کے سب مرجاتے۔

اس کی مصلحت یہ تھی کہ اہل یمن بھی اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور پھر کبھی بُرے ارادہ سے کعبۃ اللہ کی طرف نظر اُٹھانے کی بھی ہمت نہ کریں ۔