محبت میں || In Love

GR SONS

 

محبت میں

جدائی مقدر ہوتی ہے




یہ تب کی بات ہے جب میں اک خوبصورت نوجوان ہوا کرتا تھا

یونیورسٹی کا اختتامی دور چل رہا تھا۔۔۔ویسے تو لیکچرز وغیرہ ان دنوں نہیں ہو رہے تھے لیکن پھر بھی ہم سبھی دوست یونیورسٹی کی زندگی کو جی بھر کر جینے کی خاطر یونیورسٹی چلے جاتے تھے۔۔۔۔

سارا دن کلاس میں بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے۔۔۔

کلاس کی لڑکیاں بھی ان آخری دنوں میں ہم لڑکوں سے تھوڑا زیادہ ہی فری ہو
گئی تھیں

شاید وہ بھی ہماری طرح کلاس کے ہر فرد کو مس کرنے والی تھیں

میں پہاڑ کی چوٹی پہ واقع ایک قبیلے کا واحد یونیورسٹی پڑھنے والا لڑکا تھا

اس وجہ سے مجھے قبیلے میں ایک خاص عزت کا مقام حاصل تھا

ہاسٹل لائف کو میں نے بہت اچھی طرح گزارا تھا

گزارا نہیں بلکہ جیا تھا

رات کو فیلوزکے ساتھ بیٹھ کر طرح طرح کی اوٹپٹانگ حرکتیں کرنا
تاش کی بازی لگانا
ایک دوسرے کا بستر ادھر ادھر پھینکنا
رات کو سوتے وقت کسی پر پانی پھینک کر اس کو نیند سے جگا دینا اور پھر ساری رات اسکی گالیاں سننا وغیرہ وغیرہ

بہت پیارا وقت تھا وہ
کاش وہ وقت کبھی ختم ہی نا ہوتا۔

ایک دن یونیورسٹی کے کوریڈور سے گزرتے وقت میں کسی نسوانی پکار کے باعث چلتے چلتے رک گیا۔۔۔۔مجھے میرا نام لے کر پکارا گیا تھا۔

میں نے رک کر،پیچھے مڑ کر دیکھا تو میری کلاس فیلو آبش سکندر میرے روبرو کھڑی تھی۔

یہ وہی لڑکی تھی جس سے یونیورسٹی کے پہلے ہی دن میری تکرار ہوئی تھی۔۔پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔

چھوٹی سی بات پہ ہی ہم دونوں مرغیوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑنے لگ جاتے۔

وہ ایک امیر گھر کی خوبصورت اور لڑاکو طیارہ لڑکی تھی۔

کلاس کی لڑکیوں کے علاوہ وہ صرف مجھ سے ہی بات کرتی تھی۔
بات نہیں،دراصل لڑتی تھی۔

اینول ڈنر کے موقع پر نجانے کیسے ہم دونوں نے ایک دوسرے سے معافی مانگ کر پچھلے لڑائی جھگڑے ختم کر دیے۔

اس دن کے بعد ہم دونوں کی دوستی کلاس میں مشہور ہو گئی۔

یونیورسٹی کا ہر فرد مجھے آبش کے ساتھ دیکھ کر نجانے کیوں سیخ پا ہوتا رہتا تھا۔

شاید اس لیے کہ میں ایک دیہاتی سا سادہ سا لڑکا تھا جس کے ہاتھ میں لنگور کی جگہ انگور آ گئے تھے۔

دوستی ہونے کے بعد میں نے جانا کہ وہ بہت نرم دل کی اور محبت کرنے والی لڑکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں

جب کبھی وہ یونیورسٹی سے غیر حاضر ہوتی تو اپنی غیر حاضری کے بارے میں صرف مجھے ہی بتاتی۔
یہ الگ بات تھی کہ میں اسکو بتائے بغیر اسکی چھٹی کی درخواست لکھ کر جمع کروا دیتا تھا۔
یہ بات میں نے اسے کبھی نہیں بتائی تھی۔

کوریڈور سے گزرتے وقت جب اس نے مجھے پکارا تو میں رک گیا۔
وہ میرے سامنے آئی اور بولی:
" کہاں گھومتے پھر رہے ہو؟ وہ بھی اکیلے اکیلے۔۔۔۔یونیورسٹی کا آخری ہفتہ ہے۔۔۔کم سے کم یہ وقت تو تم میرے ساتھ گزارو ۔

اس نے پیار سے دوستانہ شکایت کی تھی۔
میں نے اس لڑکی کو دیکھا جس سے کبھی میرا ستر کا آکڑا تھا لیکن اب وہ میری سب سے اچھی دوست تھی۔

" چار سال تو تمہارے ساتھ ہی گزارے ہیں میں نے وہ کیا کم تھے جو اس آخری ہفتے کا رونا رونے بیٹھ گئی ہو۔۔"

میں نے عجیب سے انداز میں کہا تھا۔
" اوئے بکواس بند کر اپنی،میں نے کہا نا کہ تم میرے ساتھ ہی اپنا وقت گزارو گے تو مطلب گزارو گے۔"

وہ کبھی کبھی مجھے لے کر تھوڑی جذباتی ہو جاتی تھی۔۔۔اس دن بھی وہ جذباتی ہو گئی تھی۔

" اچھا ٹھیک ہے میری ماں۔۔۔تم چلو میں سر سے مل کر دو منٹ میں آیا۔"
وہ غصے سے مجھے دیکھ کر پاوں پٹخ کر وہاں سے چلی گئی۔ ۔

سر سے مل کر میں اسے ڈھونڈنے لگا،وہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی،میں جانتا تھا کہ جب وہ مجھ سے غصہ ہوتی تھی تو کہاں جا کر بیٹھتی تھی،
میں وہیں چلا گیا،وہ وہیں تھی۔۔۔۔

اکیلی
گم سم
پتھر کی سل پہ بیٹھی،ساتھ لگے شہتوت کے درخت سے سر کو ٹکائے گھاس پہ گرے خشک پتوں کو دیکھ رہی تھی۔

میں اسکے ساتھ جا کر بیٹھ گیا،
اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگی۔۔۔
"ناراض ہو ؟ "

میں نے سوال کیا ۔۔۔
"خاموشی۔۔۔۔"

"میں نے اسکو خاموش دیکھ کر پھر وہی سوال کیا "
اسکا جواب پھر " خاموشی " تھا۔

"کچھ تو بولو۔۔۔۔یوں چپ مت بیٹھو۔۔۔"

میں نے پیار سے اسکو منانے کی خاطر التجا کی۔۔
" وہ پھر بھی خاموش بیٹھی رہی "

جانے خشک پتوں میں کیا ڈھونڈ رہی تھی،بہت اجڑی اجڑی سی لگ رہی تھی، پہلی دفعہ اسکو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ وہ اندر سے بہت دکھی تھی،میں نے وجہ پوچھی۔ مگر اسکا جواب وہی خاموشی ہی ملا۔

میں بیزار ہو کر اٹھ کر جانے لگا تو اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
میں نے مڑ کر اسے حیرت سے دیکھا۔۔۔۔چار سالوں میں پہلی بار اس نے مجھے چھوا تھا،پہلی بار اس نے مجھ کو چھوا اور مجھے میری ہی نظروں میں معتبر کر دیا۔

" کہاں جا رہے ہو ؟ "
اس نے میری طرف دیکھ کر سوال کیا۔

"تمہیں میرا ساتھ پسند نہیں آ رہا تھا اسی لیے یہاں سے اٹھ کر جا رہا تھا "
"کس نے تمہیں یہاں سے جانے کی اجازت دی؟"

وہ سنجیدگی سے مجھ پر اپنا حق جتاتے ہوئے سوال کر رہی تھی۔۔
" وقت نے۔۔"

میں نے بھی سنجیدگی سے جواب دیا۔
"وقت کون ہوتا ہے ہم دونوں کا فیصلہ کرنے والا؟"

وہ ایک دم سے طیش میں آ گئی۔
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔خاموش کھڑا اسکو سنتا رہا۔

پھر اس نے ایک لمبی سی ٹھنڈی سانس چھوڑی اور بولی؛

"چلو آج مجھے کہیں گھمانے لے چلو "

"گھمانے۔۔۔؟وہ بھی میں۔۔۔؟ میرے پاس تو کوئی سواری بھی نہیں ہے"

مجھے نہیں پتہ،بس مجھے کہیں گھمانے لے چلو،یہ وقت شاید پھر کبھی نا آئے،
اسی لیے میں تمہارے ساتھ ایک بار کہیں گھومنے جانا چاہتی ہوں۔"

اس نے مجھے دیکھ کر اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا تھا۔

اس کو انکار کرنا،مطلب اسکی ناراضگی مول لینا تھا، وہ ناراض ہو کر بہت ظالم لڑکی بن جاتی تھی،اور میں ان آخری لمحوں میں اسکو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

"چلو اٹھو۔۔۔گھومنے چلیں"
میں نے اسکو دیکھ کر کہا
"کہاں جائیں گے ہم؟"
"جہاں بھی رب لے چلے۔۔۔"

وہ ہلکا سا مسکرائی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

ہم دونوں یونیورسٹی سے نکل کر باہر روڈ پر آ گئے،اس دور میں مجھ جیسے غریبوں کے لیے صرف تانگے کی سواری ہوا کرتی تھی۔یہ الگ بات تھی کہ آبش ایک بڑی سی گاڑی میں اپنے ڈرائیور کے ساتھ یونیورسٹی آتی تھی۔

تانگے کی سواری اسکی شان کی خلاف تھی اور میری اوقات کے مطابق تھی۔

میں نے اسے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں تمہیں کار میں بٹھانا افورڈ نہیں کر سکتا اسی لیے اس تانگے پر ہی تم کو صبر کے ساتھ اور خوشی خوشی بیٹھنا ہو گا۔۔
وہ مسکرا دی۔

میں جانتا تھا کہ وہ میرے ساتھ پیدل بھی سفر کرنے کے لیے راضی تھی۔

تانگے پر بیٹھ کر ہم، جاڑے کے موسم میں ہلکی دھوپ میں شہر کے بازار میں آگئے۔

میں اسے "چاچے گامے "کی ٹھیری پر لے گیا۔۔۔چاچا گاما کھوئے والی قلفیاں فروخت کرتا تھا۔

میں نے وہاں سے دو کھوئے والی قلفیاں خریدیں اور ایک آبش کو دے دی اور ایک خود کھانے لگا۔

چار آنے سے دو قلفیاں خریدنا اس وقت بہت عیاشی تصور کیا جاتا تھا۔

اس نے پہلے کبھی ایسی چیز نہیں کھائی تھی۔۔۔قلفی کھاتے وقت قلفی سے بہتا کھویا اسکے ہونٹوں سے نیچے ٹپک رہا تھا۔۔۔کھوئے کے کچھ قطرے اسکی ناک پر بھی لگے ہوئے تھے۔

اسے دیکھ کر میں مسکرانے لگا،وہ سمجھ گئی کہ میں کس وجہ سے ہنس رہا تھا۔،اگلے ہی پل اس نے اپنی قلفی میری ناک اور منہ مل دی اور میرے ہاتھوں سے میری قلفی چھین کر کھانے لگی،اسکے چہرے پر اس وقت جو مسکان تھی وہ قابل دید تھی۔

اس وقت ایک ہی پل میں وہ مجھے بہت ہی پیاری لگی تھی۔
دل چاہ رہا تھا کہ وہ ایسے ہی ساری زندگی کھڑی رہے۔
میرے سامنے،اور میں اسے یونہی مسکراتے ہوئے دیکھتا رہوں۔

وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب آبش میرے ساتھ باہر کہیں گئی تھی۔
ہمارے لیے وہ چند لمحے سیر و سیاحت کی ہی طرح تھے۔

آج کے دور کے بچے اس سیر کو " ڈیٹ پہ جانا" کہتے ہیں۔

وہ تانگے کی سواری اور قلفی کا مزہ مجھے ساری زندگی یاد رہا،کبھی بھلا ہی نہیں سکا ۔

جس دن ہمارا یونیورسٹی کا آخری دن تھا اس دن آبش بہت کمزور دکھ رہی تھی۔
میں اپنا سامان بیگ میں سمیٹ کر یونیورسٹی ہی لے آیا تھا اور اسے باہر چائے کے ڈھابے پر رکھ دیا تھا تا کہ یہاں سے جب فارغ ہوا تو سامان یہیں سے اٹھا کر اپنے گھر کو لوٹ جاونگا۔

اس دن تمام اساتذہ نے ہمارے ساتھ تصویریں بھی بنوائیں۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ تصویریں کبھی مجھ تک نہیں پہنچیں ۔

تمام کلاس فیلوز سے آخری بار ڈھیر ساری باتیں کیں۔
اس دن زندگی میں پہلی بار وقت بہت تیزی سے گزر گیا۔
اساتذہ سے اور کلاس فیلوز سے باتیں کر کے جی ہی نہیں بھر رہا تھا مگر اس دن وقت ہمارے حق میں نہیں تھا۔

پھر میں آبش سے ملا،وہ غمگین ہو گئی تھی۔

میں بھی اپنے آنسو بہت مشکل سے روکے کھڑا تھا۔

اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی،میں اسے جی بھر کر دیکھ رہا تھا،اس سے دور جانا پل صراط سے گزرنے کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔

پھر اس نے اپنی انگلی سے ایک سلور رنگ کی انگوٹھی اتار کر میرے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں پہنا دی،میری چھوٹی انگلی اس کی لیڈی فنگر سے بڑی تھی اسی لیے وہ انگوٹھی میری آدھی انگلی میں ہی سما سکی۔

میں نے اپنے گلے میں پہنی ہوئی چین اتار کر پاگلوں کی طرح اسکے گلے کی بجائے اسکی کلائی پہ بل دے کر باندھ دی۔

یہ سب کچھ ایک ہولناک خاموشی کے زیر اثر ہو رہا تھا۔

وہ بھی چپ تھی
میں بھی چپ تھا
اسکی آنکھیں بھی سرخ ہو گئی تھیں
میری پیشانی بھی جلنے لگی تھی

پھر وہ ایک نظر مجھے دیکھ کر
ہزار ضبط کے باوجود دو آنسو جلدی سے بہا کر
بغیر کچھ کہے
بغیر الوداع کیے
وہ جلدی سے بھاگ کر اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی
میں حیرت سے اسے دیکھ رہاتھا
اسکی گاڑی میری آنکھوں کے سامنے وہاں سے اسے لے کر چلی گئی

اور میں وہیں حیرت کا مجسمہ بنے اسکی گاڑی کو خود سے دور جاتا دیکھتا رہا۔

میں نے سوچا تھا کہ وہ اس آخری دن مجھ سے ڈھیروں باتیں کرے گی۔

ہر ہفتے بعد یا کم سے کم ایک مہینے بعد خط لکھنے کا وعدہ ضرور لے گی۔

اور اس آخری دن وہ مجھ سے مصنوعی جھگڑا کر کے مجھے ہماری پہلی ملاقات کی ضرور یاد دلائے گی۔

مگر اس نے میری امید کے مطابق کچھ نہیں کیا تھا۔

جانے اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔

میں نے آخری بار اپنی یونیورسٹی کے گیٹ کو دیکھا۔
دل مٹھی میں آگیا تھا۔

پھر بے اختیاری کے عالم میں دو آنسو بہاتے ہوئے میں نے یونیورسٹی کو الوداع کہا اور اپنا سامان اٹھا کر تانگے پہ رکھا اور اپنے گھر کی راہ لی۔

ریل کے ڈبے میں بیٹھا میں اپنی یونیورسٹی اور اپنے سبھی دوستوں سے بہت دور جا رہا تھا۔

خوشیوں اور لا پرواہی کا دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا تھا۔

گھر آ کر اپنوں سے اتنے لمبے عرصے بعد مل کر بھی خوشی نہیں ہو رہی تھی۔
نا جانے کیوں ؟

کچھ عرصے بعد گھر والوں نے شادی کا کہا تو میں نے انکار کر دیا۔
انکار کرنے کی وجہ مجھے خود معلوم نہیں تھی۔

لیکن پھر کچھ عرصہ اور گزرا تو ابا نے روایتی والد کی طرح اپنی پگڑی میرے قدموں میں ڈال دی اور بولے کہ بیٹا تمہیں میری عزت کا واسطہ ہے شادی کر لو۔

بس پھر مجھ جیسے دیسی بندے کو اپنے باپ کی عزت کی لاج رکھنا پڑی اور کچھ دنوں بعد میری شادی ہو گئی۔

شادی ہونے کے بعد بھی میں آبش کو بھلا نہیں پایا ۔

اسکی دی ہوئی انگوٹھی میری انگلی میں تھی۔
انگوٹھی تنگ ہونے کی وجہ سے میری انگلی پر اس انگوٹھی کے گہرے نشان بن گئے تھے۔

وہ نشان مجھے آبش کی یاد دلاتے تھے۔
جب بھی اسکی یاد آتی میں گھر سے باہر نکل کر پہاڑوں کی اونچائی پر چلا جاتا۔
وہاں جا کر میں بے خود سا ہو کر زور زور سے "آبش آبش " پکارنے لگتا۔

میں نہیں جانتا تھا کہ میں ایسا کیوں کرتا تھا۔
یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ بھی مجھے یاد کرتی ہو گی یا نہیں؟

" زندگی کسی بورنگ ریلوے اسٹیشن کی طرح ہوتی ہے۔
نا چاہتے ہوئے بھی ہمیں کسی بورنگ اسٹیشن پر اترنا پڑتا ہے۔
پھر وہیں سے اپنی منزل کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔"

میں بھی ایک بورنگ اسٹیشن پر اتر کر اپنی نا چاہی منزل کو پا چکا تھا۔
اس اسٹیشن پر بہت سے لوگ مجھ سے بچھڑ کر اپنی اپنی منزل کی طرف جا چکے تھے۔
وہ بھی اس اسٹیشن پر اتر کر مجھ سے جدا ہو گئی تھی۔۔یقینا اسکو بھی اسکی منزل مل گئی ہو گی۔

وقت کسی بے لگام گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑتا رہا۔

اس سارے عرصے میں بہت کچھ بدل گیا تھا ۔

میں دو بچوں کا باپ بن گیا تھا۔

ایک بیٹا تھا جسکا نام آیان علی تھا۔

اور ایک بیٹی۔۔۔۔جسکا نام آبش تھا۔

میں نے سوچ رکھا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو اسکا نام دونگا۔

اسے کسی بھی صورت اپنے قریب رکھوں گا۔
ہر روز اسکو دیکھوں گا۔
پیار کرونگا۔ ڈھیر ساری باتیں کرونگا ۔
شاید ایسا کرنے سے میرے دل کو کچھ سکون مل سکے۔

ایک سردیوں کی جاڑے والی شام میں لاہور کی مارکیٹ میں کسی کام سے گیا تھا جب مجھے اپنے سامنے ایک خاتون بہت دیر سے مجھے تکتی نظر آئی۔
اسکے چہرے پر نقاب تھا مگر اسکی آنکھیں جانی پہچانی تھیں ۔

ایک دم سے میرے ذہن میں دھماکا سا ہوا۔
" آبش "
میں نے دل ہی دل میں کہا تھا۔

دفعتا ہی اس خاتون نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔۔ اس کا ایسا کرنا تھا کہ میرا دل مٹھی میں آ گیا۔

وہ وہی تھی۔آبش۔میری دوست۔میری سہیلی ۔میری بےچینی کی اکلوتی وجہ۔

میں حیرت سے اسکو دیکھے جا رہا تھا۔

وہ چلتی ہوئی میرے سامنے آ گئی۔

وہ بھی مجھے بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

اسکی آنکھیں وہی کچھ بیان کر رہی تھیں جو وہ اس آخری دن کہہ نہیں پائی تھی۔

" کیسے ہو آلف؟ "

اس کی آواز ایک لمبے عرصے بعد سنتے ہی دل کو سکون مل گیا تھا۔
میں نے ایک پل کے لیے سکون سے آنکھیں بند کر لیں اور اسکی کوئل جیسی آواز کو اپنے دل میں قید کرنے لگا۔

" میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔تم سناو؟؟"

"میں بھی ٹھیک ہوں۔
یہاں کیسے آنا ہوا؟"

"بس ایک کام کے سلسلے میں اپنے مادر علمی شہر آنا پڑا۔
بس واپس جانے ہی والا تھا کہ تم نظر آ گئیں۔"

"شادی کر لی؟؟؟"
اس نے اچانک سے سوال کیا۔
میں نے دل پہ پتھر رکھتے ہوئے سر کو اثبات میں ہلا کر جواب دیا۔

ایک دم سے اسکے چہرے پر اسی جاڑے کی شام جیسا منظر بن گیا جیسا منظر اس آخری ملاقات کے موقع پر بنا تھا۔

" کتنے بچے پیدا کر لیے؟ "

اس نے خود کو نارمل ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ہلکے سے مسکرا کر پوچھا۔

" ایک بیٹا اور ایک بیٹی "
میں نے مختصر جواب دیا

" کیا نام ہے تمہارے بچوں کا؟"
نجانے وہ کیا پوچھنے کی سعی کر رہی تھی۔

"بیٹے کا نام آیان علی ہے۔
"
" بیٹی کا نام بتاتے ہوئے شرم آتی ہے؟؟؟"
اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

"آبش "
ہاں بولو سن رہی ہوں میں ۔

اس نے سمجھا تھا کہ میں اس سے مخاطب ہوں۔

"میری بیٹی کا نام آبش ہے"

میں نے گہری نظروں سے آبش کو دیکھا۔
جس کی ہنسی ایک دم سے رک گئی تھی۔
اور وہ بہت زیادہ حیرت اور سنجیدگی میں مبتلا ہو گئی تھی۔

وہ کچھ نہیں بولی۔
صرف مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔

"چلو آو میں تمہیں ایک جگہ پر لے کر چلتی ہوں "

اس نے میرا ہاتھ تھامنا چاہا مگر پھر ایک پل میں رک گئی۔

میری طرف اپنے بڑھتے ہاتھوں کو اس نے پیچھے ہٹا لیا۔

وہ مجھے تانگے پر بٹھا کر ایک یادوں بھری جگہ پر لے آئی۔
میں سوچ رہا تھا کہ وہ کتنی بدل گئی تھی۔

کار میں بیٹھنے والی لڑکی تانگے پہ کیسے سکون سے بیٹھی تھی۔

وہ مجھے "چاچے گامے " کی ٹھیری پر لے آئی۔

چاچا گاما بھی بوڑھا ہو چکا تھا۔
آبش کو دیکھ کر چاچے گامے نے اس سے جلدی میں سوال کیا؛

" آبش پتر۔۔اج خیر تے سی؟ دیر کیوں کر دتی آون وچ؟؟؟"

چاچے گامے کے سوال سے مجھے اندازہ ہوا کہ آبش وہاں روز ہی آتی تھی۔تبھی تو چاچا گاما اس سے اس بارے میں پوچھ رہا تھا۔

"بس چاچا۔۔۔بازار گئی سی۔۔۔اوتھے ای دیر ہو گئی ۔۔۔"

می حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جسکو پنجابی کا ایک لفظ نہیں آتا تھا اور اسے پنجابی سے چڑ تھی۔مگر آج وہ بہت اچھی پنجابی بول رہی تھی۔

پھر آبش نے اپنے پرس سے چار آنے نکال کر چاچے کو دیے۔۔۔چاچے نے اسے دو کھوئے والی قلفیاں دیں اور بولے؛

" پتر کدی تے دوناں قلفیاں کھا لیا کر۔ بس ایک ای کھاندی ایں ۔۔دوجی نوں بس تکتی رہندی ایں "

چاچے کی بات نے میرے دل پہ ضرب سی لگائی تھی۔

وہ کیا تھی اور کیا بن گئی تھی۔

چاچے کو آبش بہت پسند تھی اسی لیے وہ اس دور میں جب دس روپے میں بھی ایک قلفی نہیں ملتی تھی وہ چار آنے میں دو قلفیاں اسے دیتے تھے۔

جانے آبش نے چاچے سے اس "چار آنے" کے بارے میں کیا بتا رکھا تھا۔

آبش نے ایک قلفی خود لے لی اور دوسری قلفی میری طرف بڑھا دی۔

میں نے آبش کو دیکھا جو بڑے چاو سے قلفی کھاتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی۔

اس دن اس نے ساری قلفی بغیر ناک اور منہ گندہ کیے کھائی تھی۔

جبکہ اسے دیکھتے دیکھتے میرے ہاتھوں میں پکڑی قلفی پگھل کر میرے ہاتھوں کو گندہ کر گئی تھی۔

میں نے دیکھا کہ اسکی کلائی میں میری دی ہوئی چین ویسے کی ویسے بندھی ہوئی تھی۔

"تمہارے بچوں کا کیا نام ہے۔"؟

میں نے یونہی پوچھ لیا تھا۔

اس نے میری طرف ذرا ٹھہر کر دیکھا پھر میرے چہرے پر نظریں ٹکا کر بولی؛

"بچوں کے نام تب رکھے جاتے ہیں جب بچے ہوں۔
اور بچے تب ہوتے ہیں ج شادی ہو۔
ہاں اگر میں شادی کرتی اور میرے بچے ہوتے تو میں اپنے بیٹے کا نام " آلف " رکھتی۔"

اس نے خود پر نجانے کیسے ضبط کر رکھا تھا جب کہ میرا ضبط جواب دیتا جا رہا تھا۔

پھر میں اس سے کوئی اور سوال نا کر سکا۔
کیونکہ اسکا ہر جواب مجھے زندہ درگو کر دیتا
۔میں نے اپنی انگلی سے اسکی دی ہوئی انگوٹھی اتار کر اسکی انگلی میں پہنا دی اور بغیر کچھ کہے وہاں سے اپنے دیس لوٹ آیا۔

نا ہی میں نے کچھ کہا تھا اور نا ہی اس نے مجھے روکا تھا۔

ریل کے ڈبے میں بیٹھے ہوئے سارے رستے میری آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔

سالوں گزر گئے۔
میری انگلی پہ اسکی انگوٹھی سے بننے والے نشان آج بھی موجود ہیں۔

اس نشان والی جگہ کو دائرے کی شکل میں سوئی سے کھرچتا رہتا ہوں۔

جس سے وہ زخم بن جاتا ہے اور وہ زخم مجھے آبش کی یاد دلاتا ہے۔۔

آج اس بات کو آدھی صدی گزر گئی ہے۔

میری انگلی پر وہ نشان آج بھی باقی ہے۔

اس دن کے بعد میں اس سے کبھی نہیں ملا۔نا ہی اس شہر پھر کبھی لوٹ کر گیا ۔

مگر وہ کھوئے والی قلفی کا سواد آج بھی میری زبان پہ محسوس ہوتا ہے۔

اسکی ہنسی آج بھی اپنے قریب محسوس ہوتی ہے۔!!!

" میں رہوں یا نا رہوں
تم مجھ میں،کہیں باقی رہنا
مجھے نیند آئے جو آخری
تم خوابوں میں آتے رہنا
بس اتنا ہے تم سے کہنا
بس اتنا ہے تم سے کہنا
----------------------------------------------------------------------------------------- پتا نہیں میرا دل اتنا کمزور کیوں ہو گیا ہے جب بھی ایسی کوئی کہانی پڑھتا ہوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ دل میں عجیب سے تکلیف شروع ہو جاتی ہے (جب آبش نے 2 قلفیاں لے کر ایک کھائی اور ایک کو تکتی رہی یہ سوچ کر ہی دل بھینچ سا جاتا ہے جس کرب سے وہ گزری ہے اسے سوچ کر آنسو بہنے لگ جاتے ہیں) (اپنی بیٹی کا نام آبش رکھنا اور جب اسے پکارنا تو اپنی محبت کا یاد آنا کتنا تکلیف دیتا ہوگا)

یہ محبت اتنی ظالم کیوں ہوتی ہے۔
کیوں اتنی تکلیف دیتی ہے۔
کیوں اتنا ظلم کرتی ہے۔
کیوں سچی محبت کرنے ولے ملتے نہیں۔
کیوں جدائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
کیوں ایک دوسری کا ساتھ نصیب نہیں ہوتا۔
آخر محبت اتنی خود غرض ہوتی ہے۔
کاش یہ محبت۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی۔
فقط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔