جن کی فرمائش || Jin ki Farmaayish

GR SONS

 

جن کی فرمائش




گاؤں کے ایک لڑکے میں جن آجاتا تھا اسے بہت تکلیف ہوتی تھی جسکی وجہ سے اس کے گھر والے اسکا بہت خیال رکھتے تھے۔

وہ لڑکا جو کچھ کہتا تھا گھر والے اسے فورن کرکے دے دیتے تھے۔

اسکی عیاشیاں دیکھ کر میں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ جن والا ڈرامہ کیا جائے۔

ایک دن اپنے شیطانی پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے گاؤں کے باھر ایک جنگل میں چلا گیا سوچا وہاں جاکر چیکھنے لگ جاؤنگا اور بیہوش ہونے کی ایکٹنگ کرونگا پھر تو بس سب یہی سمجھیں گے کہ اسے بھی سایہ ہوگیا ہے۔

جنگل میں گھستے ہی ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور سامنے پڑے ہوئے پتھر یونہی یہاں وہاں پھینکنے لگا ایک پتھر سامنے درخت پہ بیٹھی شہد کی مکھیوں کے چھتے میں جا لگا۔

یہ بھی پڑھیں

اب میں اکیلا تھا اور سامنے شہد کی مکھیوں کا پورا ٹولا تھا، ناک کان آنکھ گال سر مطلب ہر جگہ کاٹا۔ اب میں نے چیکھنا شروع کردیا اور بھاگنے لگا۔

چہرہ وغیرہ بری طرح سے سوج گیا تھا میں تو جنگل میں جن کا ناٹک کرنے آیا تھا مگر فی الحال میرا اپنا منہ جن جیسا ہوگیا تھا۔ بھاگتے بھاگتے کیچڑ میں گر گیا منہ اور کپڑے کیچڑ میں خراب ہوکر کالے ہوگئے۔

اب میں سچ مچ جن لگ رہا تھا۔بھاگتے بھاگتے گاؤں کے قریب پہنچا کچھ لڑکے کھڑے تھے انہوں نے جو میری حالت دیکھی کہ یہ کیا خوفناک بلا بھاگتی ہوئی آر ہی ہے وہ بھاگنے لگے، میں انہیں دیکھ کر چلایا بچائو بچائو وہ سمجھے میں کوئی آدم خور یا جن ہوں وہ بھی بھاگنے لگے اب آگے وہ تھے اور پیچھے میں تھا۔

بھاگتے بھاگتے ہم لوگ گھروں میں داخل ہوگئے اب جو گھر والوں نے دیکھا کہ یہ کیا عجیب چیز آگئی ہے۔ وہ بھی گھبرا گئے انہوں نے مجھ پر لحاف ڈالا اور ڈنڈوں سے پیٹنے لگے میں نے چیخ چیخ کر بولا ارے چھوڑو مجھے میں ہوں شادا تب اچانک سب رک گئے مجھے لحاف سے نکالا اور ڈاکٹر کو بلایا گیا۔


بہرحال کچھ دن بعد میں ٹھیک ہوگیا۔

اب میں نے سوچا کہ جن والا ڈرامہ کرنا چاہیے ایک دن شام کو میں صحن میں چارپائی پر بیٹھا تھا تو میں نے عجیب عجیب سی آوازیں نکالنا شروع کی اور ٹیڑھے میڑھے منہ بنانا شروع کردیئے۔

سامنے چارپائی پر دادی بیٹھی ہوئی تھی مجھے دیکھ کر انہوں نے میری نقل کرنا شروع کردی میں نے زبردستی اپنی ہنسی روکی اور چلا کر بولا ابے او چڑھیا!

میں بڑھیا کو چڑھیا بول گیا تھا پھر کریکشن کے بعد دوبارہ بولا ابے او بڑھیا!

کیوں اپنی موت کو آواز دیتی ہے یہ کی کر رہی ہے تو؟

جانتی نہیں مجھے کہ میں کون ہوں میں جنگل کا جن ہوں تیرا پوتا شادا اب میرے قبضہ میں ہے۔

اب خوف کے مارے دادی کی نقلی بتیسی بجنے لگی اور بجتے بجتے زمین پر گر گئی۔

اتنے میں امان ابا بھی آگئے اور کہتے جن بابا ہمارے بچے کی جان چھوڑ دو یہ ویسے ہی نکما تھا اس سے آپکو کچھ نہیں ملیگا ہمارے پڑوسی کے بچے کو چمٹ جائو. میں نے دل میں کہا شکر ہے اصلی جن نہیں تھا ورنہ کنی وڈی بیستی دی گل سی او وی جن دے سامنے!!

خیر میں نے ڈرا دھمکا کر انہیں اس بات پر راضی کیا کہ میں جو کچھ بھی کہوں میری بات لازمی سب کو ماننی پڑیگی ورنہ شادے کی خیر نہیں ہے۔ وہ لوگ بھی راضی ہوگئے۔

اب روزانہ مجھے اچھے اچھے کھانے مل رہے تھے اور وقت پر تمام ضرورتیں پوری ہوجاتی تھی۔

گھر والوں کو تھوڑا تھوڑا شک بھی ہوگیا تھا کہ یہ کیسا جن ہے جسکو لیز چپس کھانے ہوتے یا میگی نوڈلز منگواتا ہے یا پیپسی بوتل پیتا ہے مگر ڈر کی وجہ سے کچھ نہ کہتے تھے۔

ابا مجھ سے تنگ آگئے تھے کہ کوئی خریدار مل جاتا تو شاید مجھے بیچ بھی دیتے۔

ایک دن میں نے مخصوص انداز میں برے برے منہ بنانا شروع کیے اور عجیب آوازیں نکالنے لگا پہلی فرصت میں دادی مجھے دیکھ کہ بھاگ گئی اماں ابا بھی ہاتھ جوڑ کر آگئے۔

میں نے سوچا تھا آج آخری ڈرامہ کرکے پھر توبہ کرلوں گا بس آج کسی طرح مجھے سائیکل مل جائے۔ میں نے سائیکل کی فرمائش کی انہوں نے اپنی غربت کے راگ الاپنے شروع کردیے۔

اب میں نے گھر میں اچھل کود مچا دی یہاں بھاگ کے جاتا وہاں جاتا، بھاگ بھاگ کر گر گیا اور بیہوش ہونے کی ایکٹنگ کرنے لگا جیسے شادے کو بہت تکلیف ہورہی ہو۔

ایسے میں اللہ جانے ابا کو کیا خیال آیا انہوں نے کہا یہ نقلی جن ہے کیونکہ اصلی جن جب انسان کے جسم میں آکر اسے بیہوش کر دیتا ہے تو پھر اسکے بعد وہ بیہوش انسان ایک ٹانگ پر کھڑا ہوکر ناچتا ہے اور اماں کو چپکے سے آنکھ مار دی۔

میں نے یہ بات کبھی سنی تو نہیں تھی مگر اعتبار کر
لیا کہ ابا تھوڑی نہ جھوٹ بولیں گے!!۔ میں بھی کھڑا ہوگیا اور ھو جمالو گانا یاد کرکے ایک ٹانگ پر ناچنے لگا۔بس پھر کچھ دیر بعد ابا کا جوتا سیدھا میری ناک پر آکر لگا ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اسکے بعد جو ہوا

اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ میرے دو تین دانت بھی ٹوٹ گئے تھے بولا نہیں جارہا تھا۔