لوڈشیڈنگ اور فلیٹ || Load shedding and flat

GR SONS

 

لوڈشیڈنگ اور فلیٹ




ہمارے جان سے پیارے دوست ”مولوی“ کی بیگم نے مولوی سے کہا کہ ہمارے علاقے میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بہت ہورہی ہے۔


ہم یہ فلیٹ بیچ کے کسی ایسے علاقے میں فلیٹ لیتے ہیں جہاں اتنی لوڈشیڈنگ نہ ہو۔

مولوی بیگم کا حکم سُنتے ہی علاقے کی اسٹیٹ ایجنسی گئے اور اپنے فلیٹ کی تفصیل لِکھوا کے آگئے۔

دو تین روز بعد اسٹیٹ ایجنٹ ایک فیملی کو لیکے فلیٹ دِکھانے آیا۔ ایک بڑے صاحب اپنی بیگم اور دو جوان بچّوں کے ساتھ تھے۔

ان میں لڑکا تھا اور ایک لڑکی۔۔ فیملی آتے ہی فلیٹ کے سارے کمرے دیکھنے لگی۔ مولوی اور ان کی بیگم ایک طرف کھڑے رہ کے انہیں دیکھتے رہے۔

اسٹیٹ ایجنٹ ایک کمرے کا دروازہ کھول کے اُن بڑے صاحب سے کہنے لگا۔

”دیکھئے حاجی صاحب! یہ کمرہ دیکھئے کتنا بڑا ہے۔۔۔ شاندار ۔۔۔ آج کل تو اپاٹمنٹس میں بہت چھوٹے چھوٹے کمرے بنتے ہیں۔۔ یہ کتنا بڑا ہے“


یہ بھی پڑھیں


بڑے صاحب کے منہ سے نکلا۔
”ماشاءاللہ“

بڑے صاحب کی بیگم بھی کہنے لگیں۔

”یہ دیکھئے باتھ روم میں ٹائلز بھی بہت خوبصورت لگے ہیں“

بڑے صاحب کے ساتھ لڑکا تھا وہ بول پڑا۔۔

”ابّا! یہ کمرہ میں لوں گا“

اسُی وقت لڑکی نےچینخ کے کہا۔

”نہیں ابّا! یہ کمرہ میں لوں گی“

بڑے صاحب کی بیگم بچّوں کو سمجھانے لگیں۔ ”بھٸی بعد میں فیصلہ کرلیں گے کہ کس کو کونسا کمرہ لینا ہے“

اسٹیٹ ایجنٹ نے بالکونی کا دروازہ کھولا اور کہنے لگا۔

”حاجی صاحب! دیکھیں ویسٹ اوپن ہے ۔۔ ہوا دیکھیں کتنی تیز ہے۔۔ آپ کو پنکھے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ دن میں لائٹ کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ایسے روشن کمرے ہیں“

حاجی صاحب کی بیگم حاجی صاحب سے کہنے لگیں۔

”ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔ کمرے کافی روشن اور ہوادار ہیں“

اسی لمحے لڑکی کی آواز آئی۔”ابا! یہ کمرہ میں ڈراٸنگ روم بناٶں ۔۔ نٸے پردے لگاؤں گی“

لڑکا بول پڑا۔
”نہیں ابّا! یہ اسٹیڈی روم بناؤں گا“

بچّے پھر ایک دوسرے سے حُجت کرنے لگے کہ اچانک پیچھے سے مولوی کی بیوی کی آواز گونجی۔

”ہمیں یہ فلیٹ نہیں بیچنا“

”کیا؟“ اسٹیٹ ایجنٹ کے منہ سے بے اختیار چینخ نکلی۔ سب مولوی کی بیگم کی طرف دیکھنے لگے۔

”ہمیں یہ فلیٹ نہیں بیچنا“ مولوی کی بیگم نے جملہ دھرایا۔
اسٹیٹ ایجنٹ نے مولوی کی طرف دیکھا۔

”یہ کیا کہہ رہی ہیں“

مولوی کو بھی کچھ سمجھ نہیں آیا۔ انہوں اسٹیٹ ایجنٹ کو چُپ رہنے کا اشارہ کیا اور اپنی بیگم کا ہاتھ پکڑ کے دوسرے کمرے میں لے گئے۔

” کیا ہوگیا تمہیں ۔۔ تمہارے کہنے پر تو میں نے بیچنے کا فیصلہ کیا“
اُن کی بیگم بولیں ۔۔” بس میں نے یہ فلیٹ نہیں بیچنا“

مولوی جھنجھلاہٹ میں بولے۔
”مگر کیوں ۔۔۔ ایسا کیا ہوگیا“

اُن کی بیگم اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔۔

” غضب خدا کا ۔۔ میں بھی کتنی ناشکری ہوں۔ اللہ نے اتنا شاندار فلیٹ دیا ہے

اور میں اسے بیچنے جارہی تھی۔۔ ان لوگوں نے میری آنکھیں کھول دیں۔

اتنے بڑے بڑے روشن اور ہوا دار کمرے۔۔۔۔ ویسٹ اوپن بالکونی ۔۔۔ خوبصورت ٹاٸلز ۔۔ او خدایا! میں نے تو اپنے فلیٹ کو کبھی اس زاویے سے دیکھا ہی نہیں۔ بس مجھے نہیں بیچنا “

مولوی بولے۔ ”لیکن“

بیگم بولیں۔ ” لیکن ویکن کچھ نہیں ۔۔ بس نا تو نا۔۔ ہمیں ایسا فلیٹ پھر نہیں ملے گا“

مولوی بھاری قدموں سے دوسرے کمرے میں گئے۔ جہاں وہ فیملی اور اسٹیٹ ایجنٹ بُت بنے کھڑے تھے۔

مولوی نے بڑے عاجزانہ لہجے میں بڑے صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں بہت شرمندہ ہوں۔۔۔ معزرت چاہتا ہوں۔۔ دراصل میری اہلیہ کا ارادہ بدل گیا“

اسٹیٹ ایجنٹ اور بڑے صاحب کی بیگم ایک ساتھ بڑبڑانے لگے۔

” یہ کیا بات ہوئی۔۔ نہیں بیچنا تھا تو ہمارا وقت کیوں ضائع کیا“

مولوی نے ہاتھ جوڑے ۔۔ بڑے صاحب نے اپنی فیملی کو چلنے کا اشارہ کیا جبکہ اسٹیٹ ایجنٹ بڑبڑاتے ہوٸے دروازے کو زور سے دھکیلتے ہوئے باہر نکلا۔

دوسرے روز مولوی نے مجھے آ کے جب یہ روداد سُناٸی تو میرے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑگٸے۔ میں نے کہا۔

” اصل غلطی اُن بڑے صاحب کی فیملی کی ہے۔ جب بھی کوئی چیز خریدنے جاٶ تو بیچنے والے کے سامنے اس چیز کی اتنی تعریف نہ کرو بلکہ ہوسکے تو اس میں عیب نکالو۔

میں بیگم کے ساتھ شاپنگ کرنے جاتا ہوں تو اسے پہلے سے سمجھا دیتا ہوں کہ دیکھو چیز پسند آئے تو بس اتنا کہنا کہ بس ٹھیک ہے۔۔

کوئی خاص نہیں۔۔ میں سمجھ جاؤں گا کہ تمہیں پسند ہے۔ اگر کھل کر تعریف کروگی تو دکاندار پھیل جائے گا۔ چیز کی قیمت بڑھادے گا کہ یہ انہیں پسند ہے ہر قیمت میں لے جائیں گے“

مولوی مسکرائے۔

”حنیف یار! یہ اچھا طریقہ تم نے بتایا ۔۔ کبھی بھابی نے اس فارمولے پر عمدرآمد کیا بھی یا نہیں“

میں نے اداس لہجے میں کہا۔

” ہاں ایک بار کیا ۔۔ میں نے ایک بار اس سے پوچھا۔ کیسا لگ رہا ہوں۔۔ بولی۔۔ بس ٹھیک ہے۔۔ کوئی خاص نہیں“