مصطفیٰ سلیمان
یہ وہ نوجوان ہے جس کے بارے میں بل گیٹس نے کہا تھا کہ اِس کے کام پر نظر رکھو کہ یہ ٹیکنالوجی کی دنیا کا ایک بڑا نام بن سکتا ہے۔
اب بل گیٹس نے کہا ہے تو ہم بھی ذرا ایک نظر اُس پر ڈال لیتے ہیں۔
لندن میں پلا بڑھا مصطفی سلیمان ایک مسلمان ہے۔ اُس کا شامی نژاد باپ غالباً اچھے مستقبل کی تلاش میں لندن آیا اور وہاں ٹیکسی چلا کر زندگی گزارتا رہا جبکہ اُس کی ماں ایک نرس تھی۔ یعنی ہر لحاظ سے وہ ایک عام سے خاندان کا فرد تھا۔
مصطفیٰ کی پریکٹیکل لائف کا آغاز اُس وقت ہوا جب صرف اُنیس سال کی عمر میں اُس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر مسلم یوتھ ہیلپ لائن شروع کی۔
دراصل برطانیہ میں موجود مسلم نوجوانوں کا حال مرزا غالب والا تھا کہ"ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر"؛
یعنی ایک طرف اُس معاشرے میں گھل مل جانا اُن کی مجبوری تھی تو دوسری طرف ڈرگز کلچر اور بے راہ روئی سے بھی بچنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
یہ فون ہیلپ لائن سروس اُنہی کی راہنمائی کے لیے تھی۔ اتفاق سے ادھر یہ سروس شروع ہوئی، ادھر نائن الیون کا واقعہ ہو گیا،
نتیجے میں اسلاموفوبیا کے واقعات بڑھنے لگے اور مسلم نوجوان مزید دباؤ میں آ گئے۔
تو اُس دور میں اِس سروس نے مسلم یوتھ کو سوشل آئسولیشن سے نکالنے میں مدد کی۔ یہ آج برطانیہ میں مسلمانوں کے لیے مینٹل ہیلتھ کی سب سے بڑی سروس بن چکی ہے۔
لیکن مصطفی سلیمان کے لیے، جو بنیادی طور پر ایک فلاسفر اور شاندار مینیجر تھا، یہ صرف ایک آغاز تھا۔
اُسکی زندگی میں اہم موڑ 2009ء میں آیا۔ کوپن ہیگن میں ماحولیات سے متعلق کانفرنس ہو رہی تھی۔
مصطفیٰ بھی آرگنائزرز میں شامل تھا۔
اُس کی کوشش تھی کہ کانفرنس میں آئے مندوبین جنگلوں کی کٹائی کے خلاف کسی مشترکہ حکمت علی پر متفق ہو جائیں۔ اُسے بہت مایوسی ہوئی جب اُسنے دیکھا کہ وہ لوگ کسی کامن سٹریٹیجی پر متفق نہیں ہو سکے۔۔۔
لیکن اُسی مایوسی سے نئی راہ نکلنے والی تھی۔
یہ سال 2009ء تھا۔ فیس بک ایک بڑی کمپنی کے طور پر اُبھر رہی تھی۔ اُنہی دنوں مصطفی نے کہیں پڑھا کہ فیس بک کے active users کی تعداد ایک سو ملین تک پہنچ چکی ہے۔ یہ چیز اُسکے دماغ میں بیٹھ گئی۔
اُسے احساس ہوا کہ کوپن ہیگن کانفرنس میں تھوڑے سے لوگوں کو بھی ایک کامن گول پر اکٹھا نہیں کیا جا سکا؛ دوسری طرف سوشل میڈیا پر ایک سی سوچ رکھنے والے لاکھوں لوگوں کو بھی باہم جڑنے میں بس چند ہی دن لگتے ہیں۔
اُس روزمصطفی کو احساس ہوا کہ آنے والے وقت میں یہ ٹیکنالوجی ہو گی جو لوگوں کو اکٹھا کرے گی۔ یوں وہ فلاسفی اور نظریات کی دنیا سے کمپیوٹرفیلڈ میں آ گیا۔ اگلے ہی سال اُس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ڈیپ مائنڈ نامی ایک کمپنی کا آغاز کیا۔
یہ ایک آرٹیفیشل انٹیلی جنس ریسرچ فرم تھی۔
ڈیپ مائنڈ کا گول کیا تھا؟ وہ فیصلے جنہیں لینے کے لیے انسانوں کو لامحدود وقت تک سوچنا پڑ سکتا ہے، اُس سے کہیں بہتر فیصلے بہت کم وقت میں لینے کے لیے کمپیوٹرز کو تیار کرنا!
ذرا سوچیں، ہم لو گوں نے 2023ء میں پہلی مرتبہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو تھوڑا سا جاننا اور استعمال کرنا شروع کیا ہے لیکن مصطفی سلیمان اور اُس کے دوست آج سے تیرہ چودہ سال پہلے اُس وقت اے آئی کے الگوردھم تخلیق کر رہے تھے جب مغرب میں بھی بہت کم لوگ اِس فیلڈ سے باخبر تھے۔
میں نے مصطفی کا ایک انٹرویو سُنا، وہ بتا رہا تھا کہ اُس زمانے میں اُسے اپنا کام لوگوں سے چھپانا پڑتا تھا کیونکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا سُن کر لوگ ہنسنے لگتے؛ اُنہیں یہ سائنس فکشن پڑھنے والے بچوں کا ایسا احمقانہ خواب لگتا تھا جس کی تعبیر ممکن نہیں۔
"ڈیپ مائنڈ" عام لوگوں کی نظر سے اوجھل ضرور تھی لیکن ٹیک۔ورلڈ کے لوگ اِس کی اُٹھان بڑۓ غور سے دیکھ رہے تھے۔ Tesla کے ایلون مسک اور PayPal کے پیٹر تھیئل سمیت کئی بڑے ناموں نے اِس میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی۔
پھر 2014ء میں گوگل نے پینسٹھ کروڑ ڈالر میں ڈیپ مائنڈ کو خرید لیا۔ یہ اُس زمانے میں امریکہ سے باہر گوگل کی سب سے بڑی اور مہنگی خرید اری تھی۔
ڈیپ مائنڈ کی کامیابیاں ایک الگ پوسٹ کا ٹاپک ہو سکتی ہیں؛ فی الحال میں ایک نسبتاً سادہ حوالہ دوں گا۔
گوگل کے دنیا بھر میں ڈیٹا سینٹرز ہیں جنہیں ٹھنڈا رکھنے کے لیے بے پناہ بجلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ مصطفی کو اِس کا حل تلاش کرنے کا ٹاسک ملا۔ اُس نے ڈیپ مائنڈ کے الگوردھم کو بہترین حل ڈھونڈنے پر لگا دیا۔
اب ایسے حل دراصل بہت سے فیصلوں کا ایک بڑا کمبینیشن ہوتے ہیں۔ وہ پرفیکٹ کمبینیشن تلاش کرنا جو بہترین رزلٹ دے سکے بہت زیادہ وقت طلب کام ہے۔
اِسکی ایک مثال بریانی سے لے لیں۔ اِس میں ڈلنے والے بارہ پندرہ مختلف مصالحوں کا سب کو علم بھی ہے لیکن پھر بھی چند ہی دوکانیں ایسی ہوتی ہیں جہاں بے پناہ رش ہوتا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مصالحوں کا وہ پرفیکٹ کمبینیشن اور اُنہیں دیگ میں ڈالنے کا وہ بہترین وقت تلاش کر لیا ہوتا ہے جو ذائقے کو عروج پر لے جائے۔
تو گوگل ڈیٹا سینٹر میں بجلی بچانے والا یہ پراجیکٹ کسی انسان کو دیا جاتا تو شاید وہ دس سال میں بھی بہترین اور آئیڈیل حال تلاش نہ کر سکتا۔
ڈیپ مائنڈ نے سینکڑوں ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کمبینیشنز پر ”غور“ کرنے کے بعد جو بہترین حل تجویز کیا اُس نے گوگل کے ڈیٹا سینٹرز میں بجلی کا استعمال چالیس فیصد کم کر دیا۔
مصطفیٰ اُسی حل کو دنیا بھر کی عمارتوں میں استعمال کر کے دنیا بھر کی بجلی کی کھپت اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا چاہتا ہے۔
یہی مصطفیٰ سلیمان پچھلے ماہ مائیکروسوفٹ کا حصہ بن گیا ہے۔
مائیکروسوفٹ نے اُسے اپنے آرٹیفیشل انٹیلی جنس شعبے کا مکمل چارج دے دیا ہے۔
اب مائیکروسوفٹ A.I کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر اُس کے پاس جیتنے کو وسیع دنیا اور اُڑنے کو لا محدود آسمان ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اے آئی کے شعبے کو کن بلندیوں تک لے جاتا ہے۔
ٹیک ورلڈ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ایسے میں اگر کوئی جینیئس، کوئی کام کا بندہ آگے نکلتا ہے اور ایسے مقام تک پہنچتا ہے تو ہمیں اُس پر خوش بھی ہونا چاہیے اور اُسے اپنے لیے موٹیویشن بھی بنانا چاہیے۔
آج کل ہمیں ایسے ہی ہیروز کی ضرورت ہے۔