شادی کی تقریب اور بھوکے لوگ || A wedding party and hungry people

GR SONS

 

شادی کی تقریب اور بھوکے لوگ




عموماً میں شادی کی دعوت میں بالخصوص ولیمہ میں شامل نہیں ہوتا۔ پہلے یا بعد میں مبارکباد دے لیتاہوں۔ دراصل شوگر اس سٹیج پر ہے کہ پرہیز کرنا ناگزیر ہے۔

کچھ ہفتے پہلے ایک عزیز کے پرزور اصرار پر دعوت ولیمہ میں شامل ہوگیا۔ بہت اچھی ”گیدرنگ“ تھی۔ بڑے لکھے پڑھے اور سلجھے لوگ جنہیں عرف میں ”ہائی جینڈری“ کہاجاتاہے موجودتھے۔

مجھے جس ٹیبل پر بٹھایا گیا، سب لوگ مجھ سے زیادہ لکھے پڑھے، اعلیٰ عہدوں پر فائز اور سرمایہ کار تھے۔
چند ایک کے سوا باقی سب میرے لیے انجان تھے۔

سب لوگ کچھ ناکچھ گفتگو کررہے تھے۔ ایک پروفیسر صاحب نے مجھے مخاطب کیا اور بولے” مولنا آپ بھی کچھ فرمایے، خاموش کیوں ہیں، کچھ بات سنائیں ناں“

میں نے کہا”قبلہ پہلی بات تو یہ میں مولنا نہیں ہوں، ایک سادہ سا مسلمان ہوں،

دوسری بات یہ کہ آپ جیسے قابل احباب کی موجودگی میری کیا اوقات ہے“

میری بات سن کر باقی لوگ بھی متوجہ ہوگئے ایک صاحب سگار جھاڑتے ہوۓ بولے”آپ بات کریں، ہم ہمہ تن گوش ہیں، کچھ ارشاد فرمایے“

میں نے پانی کا آخری گھونٹ پیا اور کہا”بس میں ایک مختصر بات کرنا چاہوں گا، آپ چاروں طرف نگاہ دوڑائیں مختلف شہروں کے کم و بیش 1500معزز ترین احباب کا اجتماع ہے۔


یہ بھی پڑھیں
کتنے پیارے ملبوسات پہنے ہوئے، پرفیوم میں مہکے ہوۓ، بہترین چمکتے جوتے پہنے ہوئے، لاکھوں روپے کی گاڑیوں کے مالک، لیکن کھانا کھلنے کی دیر ہے یہ تمام معزز مہمانان یوں کھانے پر پل پڑیں گے کہ کیفیت بیان سے باہر ہے“

میری بات سن کر سب کے چہرے اتر سے گئے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، پروفیسر صاحب بولے”بھئی بات تو آپکی درست ہے“

ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ کھانا کھل گیا۔

میں نے محسوس کیا میرے ٹیبل والے لوگ ہچکچا رہے ہیں۔ میں نے اپنی پلیٹ اور چمچ لیا اور کسی اور طرف نکل لیا۔

جب دعوت ختم ہوئی۔ بھرے ہال میں سے کوئی ایک ٹیبل ایسی نہیں تھی جس پر پلیٹوں میں کھانا بچا ہوا نا پڑا ہو، چاول، نان، قورمہ، حلوہ، سلاد اور رائتہ جگہ جگہ پلیٹوں میں بچا پڑا تھا۔

بہت دکھ اور افسوس ہوا۔
جب میں اپنے پہلے ٹیبل پر گیا تو وہاں بھی پلیٹیں بکھری ہوئی اور ادھ کھاۓ کھانے سے بھری پڑی تھیں۔

احباب گرامی!

یہ انتہائی نامناسب حرکت ہے۔ کھانے کو ایسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 18 کروڑ 10لاکھ ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں سالانہ 97 لاکھ ٹن خوراک ضائع کی جاتی ہے

جسمیں سے 48لاکھ ٹن خوراک شادیوں میں ضائع کی جاتی ہے۔

میں نے بہت سوچا اس سوچ اور نامناسب فعل کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی تو دو پہلو سامنے آئے ایک پہلو شرمناک تو دوسرا افسوسناک تھا۔

١۔ شرمناک یہ کہ کھانا بچانے کو فیشن اور رواج سمجھا جاتاہے۔

٢۔ افسوسناک پہلو یہ کہ ذہنی طور پر بھوکے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ اس کیٹگری کو دو حصوں بانٹا جاسکتاہے۔

کچھ لوگ وہ ہیں جو روزانہ پیٹ بھرکر کھاتے ہیں لیکن جب بھی متنوع کھانا دیکھیں انکے دماغ میں موجود دیوانی بھوک جاتی ہے

جبکہ دوسری قسم کے بھوکے لوگ وہ ہیں جو واقعتاً بھوکے ہوتے ہیں، شادی بیاہ کے علاوہ انہیں طرح طرح کےکھانے نصیب نہیں ہوتے انکی گنجائش بس دال روٹی کے گرد گھومتی رہتی ہے۔

بہرحال ہر صورت میں خوراک کے ضیاع سے اجتناب ضروری ہے۔

ہمیں اپنی اخلاقیات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اسطرح خوراک ضائع کرنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔