دو انڈے اور طلاق
جوائنٹ فیملی سے تعلق رکھنے والے سبھی سنجیدہ افراد ضرور پڑھیں۔
ایک عورت صبح اٹھی، فریج میں پڑے انڈے اٹھائے، ناشتہ بنایا، خود کھایا، شوہر کو دیا، شوہر اپنے کام پر چلا گیا، عورت اپنے کام پر چلی گئی۔
چند گھنٹوں بعد شوہر نے بیوی کو کال کرکے کہا کہ گھر پہ تھوڑا مسئلہ ہوگیا ہے، تم آج سیدھی امی کی طرف چلی جانا۔ میں معاملہ نمٹا کر تمہیں لے آؤں گا۔۔۔۔
بیوی نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو شوہر ٹال گیا، لیکن بیوی کے اصرار کرنے پر اس نے بتا دیا کہ صبح جو تم نے فریج سے انڈے لے کر بنائے تھے وہ امی نے باجی کے لیے منگوا کر رکھے تھے۔
امی کو لگتا ہے تم نے وہ جان بوجھ کر اٹھا کر استعمال کیے ہیں۔ امی تھوڑی ناراض ہیں۔ تم اپنی امی کی طرف چلی جانا، میں گھر جا کر معاملہ سلجھا کر شام تک تمہیں لے آؤں گا۔
لیکن عورت نے شوہر کی بات نہ مانی۔
جاب سے سیدھی گھر گئی۔
جاتے ہوئے ایک درجن انڈے لیتی ہوئی گئی۔
گھر پہنچ کر انڈے لے جا کر ساس کے سامنے رکھے اور کہا ان انڈوں کی وجہ سے آپ نے جھگڑا کھڑا کیا تھا ناں؟ دو اٹھائے تھے بارہ لے کر آئی ہوں۔
شوہر بھی یہ سب سن رہا تھا۔
ساس نے بیٹے کو آواز دی اور کہا کہ دیکھو اس نے انڈے لا کر میرے منہ پر مارے ہیں۔
آج تو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یہ میرے ساتھ کتنی بدتمیزی کرتی ہے۔ تم اسے ابھی کے ابھی فارغ کرو۔
معاملہ بگڑتا بگڑتا اس حد تک پہنچا کہ شوہر نے وہیں کھڑے کھڑے بیوی کو ایک طلاق دے ڈالی۔
دو انڈوں کی وجہ سے ایک گھر ٹوٹ گیا۔
*قصور وار کون کون تھا؟*
1_ ساس جس نے بہو کی اتنی سی بات پر فساد برپا کیا۔
2_ شادی شدہ بہن، جو ماں کو روک نہ سکی، سمجھا نہ سکی۔
3_ بیوی جس نے شوہر کو اپنے طریقے سے معاملہ حل نہ کرنے دیا۔
4_ شوہر جو بالآخر ماں کے دباؤ میں آکر اتنی سی بات پر طلاق دے بیٹھا۔
*اس سب پر کیسے کیسے قابو پایا جاسکتا تھا؟*
1_ ساس بڑا پن دکھاتی، انڈے دوبارہ منگوا لیتی۔
2_ بہن ماں کو کسی نہ کسی طرح ٹھنڈا کر لیتی۔
3_شوہر ماں کی بات کو ہلکے پھلکے انداز میں نظرانداز کرکے فون پر ہی سمجھا دیتا کہ کوئی بات نہیں، اگر میری بیوی سے اتنی سی غلطی ہوگئی ہے تو چھوڑیں، دو انڈے ہی تو ہیں، منگوا لیں۔ اور بیوی کو فون نہ کرتا۔
4_ بیوی اس کو انا کا مسئلہ نہ بناتی، شوہر کی بات مان کر ماں کے گھر چلی جاتی یا سسرال جاکر خاموشی اختیار کرتی یا ساس سے معذرت کرلیتی کہ اوہو امی! مجھے تو پتا ہی نہیں چلا وغیرہ وغیرہ۔
5_ شوہر کسی نہ کسی طرح اپنے اعصاب کو قابو میں رکھ لیتا۔ بیوی سے ناراض ہوجاتا، اسے کچھ دن اس کی ماں کے گھر بھیج دیتا لیکن یہ انتہائی قدم نہ اٹھاتا۔
ہمارے معاشرے میں ہمیشہ نہیں تو اکثر جھگڑے "دو انڈوں" جیسی بے مول چیزوں پر ہی شروع ہوتے ہیں، پھر انا، زبان کی تیزی اور غصہ معاملے کو طلاق تک لے جاتا ہے۔
یہ معاملات بگاڑنے میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں ان ہی میں سے کسی ایک کی ذرا سی کوشش، تھوڑی سی معاملہ فہمی، دور اندیشی اور انا پر سمجھوتہ گھر ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے۔
بس جب بھی ایسا کوئی معاملہ پیش آئے تو سمجھیں کہ میں ہی وہ واحد انسان ہوں جو اس معاملے کو سلجھا سکتا ہے، لہذا اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور نسلوں کو بربادی سے بچا لیں۔