جی پی ایس
یہ کہانی ایک ایسے سائنسی انقلاب کی ہے جو آج ہماری روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے—GPS، یعنی Global Positioning System کی ایجاد۔ اس کا آغاز ایک حیرت انگیز اتفاق سے ہوا، اور پھر یہ آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہوا آج کی شکل اختیار کر گیا۔
یہ سب 1957 میں اس وقت شروع ہوا جب سوویت یونین نے دنیا کا پہلا مصنوعی سیارہ سپتنک 1 خلا میں بھیجا۔ یہ سیارہ ایک سادہ سا دھاتی گولا تھا جو زمین کے گرد مدار میں گردش کر رہا تھا، لیکن اس کی ایک خاص بات تھی—یہ ایک مخصوص ریڈیو سگنل بھیج رہا تھا۔ اس وقت کے امریکی سائنسدانوں نے جب اس کے سگنلز کو غور سے سنا تو ایک دلچسپ دریافت کی۔
امریکا کی MIT لینکن لیبارٹری کے دو سائنسدان، ولیم گائر اور جارج ویڈیل، نے محسوس کیا کہ جب سپتنک زمین کے گرد گھوم رہا تھا، تو اس کے ریڈیو سگنلز کی فریکوئنسی میں تبدیلی آ رہی تھی۔ یہ تبدیلی ڈوپلر ایفیکٹ کی وجہ سے تھی، جس کا مطلب تھا کہ اگر کوئی چیز حرکت کر رہی ہو تو اس کے سگنلز کی فریکوئنسی ہمارے نقطہ نظر سے مختلف محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہی اثر ہے جو ہمیں تب محسوس ہوتا ہے جب کوئی ایمبولینس ہمارے قریب آتی ہے تو اس کا سائرن تیز سنائی دیتا ہے، اور جب وہ ہم سے دور چلی جاتی ہے تو آواز کی پچ کم ہو جاتی ہے۔
یہ ایک زبردست دریافت تھی! اس کا مطلب تھا کہ اگر ہمیں کسی مصنوعی سیارے کی موجودہ پوزیشن معلوم ہو، تو ہم اس کے سگنلز میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھ کر خود اپنی لوکیشن معلوم کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سیٹلائٹس صرف زمین کو مانیٹر کرنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں اور چیزوں کو نیویگیٹ کرنے میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔
یہاں سے ایک نئی دوڑ شروع ہوئی—امریکی فوج نے محسوس کیا کہ اگر وہ خلا میں کئی سیٹلائٹس بھیج کر ان کے سگنلز کا استعمال کرے، تو وہ زمین پر موجود کسی بھی مقام کا انتہائی درست پتہ لگا سکتے ہیں۔ چنانچہ 1973 میں امریکی محکمہ دفاع نے ایک خفیہ پروجیکٹ شروع کیا، جسے بعد میں GPS (Global Positioning System) کا نام دیا گیا۔
ابتدائی طور پر، GPS صرف فوج کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کی مدد سے جنگی جہاز، بحری بیڑے، اور فوجی یونٹ اپنی پوزیشن کا درست اندازہ لگا سکتے تھے، خاص طور پر جب وہ دشمن کے علاقے میں ہوں۔ لیکن ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس ٹیکنالوجی کو عام عوام کے لیے کھول دیا۔
1983 میں، ایک کورین ایئرلائن کا مسافر طیارہ راستہ بھٹک کر سوویت یونین کی فضائی حدود میں داخل ہو گیا، جہاں اسے سوویت فضائیہ نے دشمن سمجھ کر مار گرایا۔ اس واقعے نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن نے اعلان کیا کہ GPS کی ٹیکنالوجی صرف فوج تک محدود نہیں رہے گی بلکہ عام لوگوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے دیا جائے گا تاکہ آئندہ اس طرح کے حادثات نہ ہوں۔
اس کے بعد، GPS کے سیٹلائٹس کو مزید بہتر کیا گیا، اور 1990 کی دہائی میں اسے مکمل طور پر عام لوگوں کے لیے دستیاب کر دیا گیا۔ پہلے پہل، GPS ڈیوائسز بڑی اور مہنگی ہوتی تھیں، لیکن جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی، یہ چھوٹی ہوتی گئیں اور موبائل فونز اور گاڑیوں میں شامل کر دی گئیں۔
آج، GPS ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ ہم جب کہیں جاتے ہیں، تو گوگل میپس یا کسی اور نیویگیشن سسٹم کا استعمال کرتے ہیں، اور یہ سب GPS کی مرہون منت ہے۔ چاہے آپ کسی نئی جگہ کا راستہ تلاش کر رہے ہوں، کسی کھوئے ہوئے دوست کو ڈھونڈ رہے ہوں، یا کسی پیکیج کی ڈیلیوری کو ٹریک کر رہے ہوں—GPS ہر جگہ موجود ہے، بغیر کسی تاخیر کے، بغیر کسی غلطی کے۔
یہ وہ حیرت انگیز کہانی ہے جو ایک سادہ سے ریڈیو سگنل سے شروع ہوئی اور آج پوری دنیا کو جوڑنے والے سب سے اہم نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکی ہے۔ GPS نہ صرف نیویگیشن کا نظام ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک چھوٹی سی دریافت وقت کے ساتھ کیسے دنیا کو بدل سکتی ہے!
یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔